jump to navigation

October 23, 2018

Posted by Farzana Naina in Blogroll, Culture, Feelings, Karachi, My Articles, Pakistan, Sindh, Sindhi, Urdu.
add a comment

میں اس خوش قسمت دور کی ہوں جب نانیاں دادیاں روایتی طریقوں سے کھانے تیار کر کے اپنے خاندان کو کھلاتی تھیں، آج سویرے سویرے ’’ سیٹر ڈے کچن ‘‘ میں مچھلی کی ترکیبوں نے مجھے میری پیاری اماں (دادی جان) کے ہاتھ کے ذائقوں میں ڈبوئے رکھا، یورپی مچھلیوں کے نام سنتے ہوئے مجھے کراچی کے وہ دن بہت یاد آئے جب اماں تازہ مچھلی بڑی دیکھ بھال سے خریدتی تھیں، پاپلیٹ، رہو ، سرمئی ، لیڈی فش ، پلا ، کھگا، کنڈا وغیرہ بھاؤ تاؤ، تول مول کے بعد مجھے بھی ان مچھلوں کو دھونے دھلانے کا کام کبھی کبھارسونپا جاتا تو میری آنا کانی دیکھنے لائق ہوتی!

مجھے ان کی آنکھیں، گلپھڑے اور کانٹے نکالتے ہوئے بہت گھن آتی تھی اور بعد میں دس دس دفعہ ہاتھ دھو کر پونڈز کی کریم ہاتھوں  پر ملا کرتی، اماں کے ہاتھ کا ذائقہ بڑی بھابھی کے سوا کسی اور کے ہاتھ سے نہیں چکھا ، البتہ آنٹی ( دوسری امی ) کے ہاتھ کی خالص سندھی مصالحے میں لیپ کر تلی ہوئی مچھلی بھی لا جواب ہوا کرتی تھی۔

جب میں انگلینڈ آئی تو دیکھا کہ پنجاب میں پرورش پانے کے باعث اختر، میرے سسرال والے اور بیشتر پنجابی دوست جھینگوں اور مچھلی وغیرہ کے اتنے شائق نہیں تھے جتنے ہم کراچی والے، یوں بھی لاہورمیں شاید دریائی مچھلی پائی جاتی ہے، جبکہ کراچی میں سمندری مچھلیوں کی بڑی ورائٹی دستیاب ہوا کرتی تھی۔

 پرسوں میں نے جو مچھلی بنائی تھی اس پر پارسلے، کالی مرچیں، نمک، تھوڑا لہسن ، لیموں کا رس اور زیتون کا تیل ملا کر پیس کر وہ پیسٹ اور کدو کش کیا ہوا پنیر اوپر سے ڈالا تھا، نتیجے میں گھر والوں نے انگلیاں تک چاٹ لیں ۔

بہر الحال پاکستان کی مچھلی کا ذائقہ کسی میں نہیں !

درج ذیل لنک گو پچھلے برس کا ہے لیکن آپ کو اگر پاکستانی سیاست کے چینلز دیکھنے سے فراغت ملے تو اس کا مطالعہ سیر حاصل رہے گا۔

J

https://www.dawnnews.tv/news/1068999

بجلی، پانی اور پاکستان April 17, 2018

Posted by Farzana Naina in Issues of Pakistan, Karachi, Pakistan, Pakistani.
Tags: , , ,
add a comment

بجلی، پانی اور پاکستان

سویڈن کی یہ خبر پڑھئیے اور سر دھنیئے کہ دوسرے ممالک  قدرتی وسائل کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے کس طرح اپنے کام میں لے رہے ہیں۔

بیرونِ پاکستان ترقیاتی کاموں کی فروانی دیکھ کر اپنے ملک کی بد قسمت عوام کے حقوق کی پامالی پر آنکھیں پانی سے بھر جاتی ہیں۔

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں دو کلو میٹر طویل الیکٹرک سڑک بنائی گئی ہے، یہ بجلی کی سڑک ائیرپورٹ کے نزدیک بنائی گئی ہے جس پر گاڑی چلانے کے لیے گاڑی کو الیکٹرک کیبل سے منسلک کیا جاتا ہے جب کہ کیبل کا دوسرا سرا سڑک پر لگے الیکٹرک سسٹم سے جوڑ دیا جاتا ہے اس طرح ایک عام گاڑی مکمل طور پر برقی کار میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

سویڈن میں 2030ء تک فیول سے نجات حاصل کرنے اور ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تیل کے استعمال میں 70 فیصد تک کمی لانے کے لیے توانائی کے دیگر ذرائع پر کام کیا جا رہا ہے

سٹاک ہوم سے باہر ایک لاجسٹک مقام تک الیکٹرک فیکیشن روڈ پر چلنے والی الیکٹرک گاڑیاں اب خودبخود چارج ہوتی رہیں گی جس کے لئے روڈ ریچارج ایبل خصوصی بیٹریاں گاڑیوں میں نصب کی جا رہی ہیں جن میں نیچے کی طرف سے ایک حصہ سڑک پر بچھی ہوئی الیکٹرک وائر نگ کو چھو سکتا ہے جبکہ گاڑی رکنے کی صورت چارج ہونا خود بخود بند ہو جائے گا۔

یہ نظام گاڑی کی توانائی کی کھپت جانچ سکتا ہے اس کی تعمیر پر ٹرام لائن کی نسبت پچاس فیصد کم خرچہ آتا ہے۔ سویڈن کی حکومت 2030ء تک ماحولیاتی آلودگی میں اپنا کردار صفر کرنے کے لئے فوسل فیول (زمینی ایندھن) کے استعمال سے آزادی کا ہدف رکھتی ہے جس کے لئے ٹرانسپورٹ سیکٹر کا زمینی ایندھن پر انحصار 70 فیصد تک کم کیا جائے گا۔

پاکستان کے حالیہ دورے میں ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر جامشورو جانا ہوا، وہاں پہنچ کر میں حیرت زدہ رہ گئی کہ اس گھر میں بجلی کی کمی کا کوئی واویلا نہیں تھا، پنکھے ٹھنڈی ٹھار ہوائیں جھل رہے تھے اور تیز روشنی والے بلب ہم کو جگمگاتے خوش آمدید کہتے نظر آئے۔

ان سے جب اس راز کو کھولنے کا کہا تو وہ ہمیں مکان کی چھت پر بنے ہوئے بر آمدے نما کمرے میں لے گئے، وہاں پر سولر سسٹم لگا ہوا تھا، شمسی توانائی سے ان کا گھر مستفید ہورہا تھا اور بجلی کے بل بھی سوہانِ روح نہ تھے۔

کمال ہی کمال، بہرالحال اس سسٹم  کا خرچہ کافی ہے کہ جو ایک عام شہری کے وسائل پر شاید پورا نہیں اترسکے گا۔

ہم نے کبھی اپنے وطن میں سورج سے ملنے والی توانائی کی جانب توجہ نہیں دی، سولر پاور کو عام کرنے میں کس چیز کی رکاوٹ ہے یہ سمجھ سے بالاتر ہے!

اس کام کے لیئے جتنی انویسٹمنٹ کی جائے گی اس سے سوگنا بڑھ کر ہمارے ملک کو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

ہمارے وطن میں رہائشی علاقے تو کیا بلکہ ہسپتالوں تک کو مناسب بجلی مہیا نہیں کی جاتی، اس قسم کے ادارے جہاں انسانی جانیں بچائی جاتی ہوں بجلی کے بغیر کیسے چل رہے ہیں؟ یقیناَ کوئی خدائی ہاتھ ان کی مدد کے لیئے کارفرما ہوگا!

بجلی مہیا کرنے کے لیئے کڑوڑوں کے منصوبے پاس ہو ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچتا !

آپس کی لوٹ کھسوٹ اور تنازعات میں پڑ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیئے ملک و قوم کی فلاح و بہبود نامی کوئی سوچ ان لوگوں کے ذہن میں ناپید ہے۔

ایسے لوگوں کا بہترین حل یہ ہے کہ الیکٹرک شاک کھلا کر ان کو دنیا سے آزاد کردیا جائے۔ یہ ایک سخت اسٹیٹمنٹ ہے لیکن ہم لوگ بیزار آ چکے ہیں اور کسی بھی صورت ہم کو ان لوگوں سے اپنے معاشرے کو پاک کرنا ہوگا، جب تک سخت سزائیں نہیں لاگو ہوں گی یہ آوا بگڑا ہی رہے گا !!!

پاکستان میں متعدد نئے بجلی گھر بنانے کے منصوبے آئے دن سنائی تو دیتے ہیں لیکن مجبور عوام فقط خوش آئند خوابوں کے پنکھے ہی جھل کر رہ جاتے ہیں۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ نے گزشتہ برس بتایا تھا کہ پاکستان نے 2030 تک ایٹمی توانائی کی گنجائش 8 ہزار 800 میگاواٹ تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے مزید تین سے چار بڑے ایٹمی ری ایکٹرز بنائے جائیں گے۔

اس وقت پاکستان کے پاس 5 چھوٹے ری ایکٹرز ہیں جن کی مجموعی مشترکہ پیداوار صرف 1300 میگاواٹ ہے۔ چشمہ کے مقام پر چوتھا پاور پلانٹ ستمبر میں فعال کیا گیا جسے چینی کمپنی ’چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن‘ نے بنایا ہے اور یہی کمپنی کراچی کے قریب بھی 1100 میگاواٹ کے دو ایٹمی ری ایکٹرز تعمیر کررہی ہے۔

 کہا گیا ہے کہ دونوں نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کا کام 60 اور 40 فیصد مکمل ہوگیا ہے جو 2020 اور 2021 میں فعال ہوجائیں گے۔ پاکستانی حکومت 8 ویں ایٹمی ری ایکٹرز کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی دینے والی ہے جس کی پیداواری گنجائش 1100 میگا واٹ ہوگی اور جس کے مکمل ہونے پر بجلی کی مجموعی پیدوار 5 ہزار میگا واٹ تک پہنچ جائے گی۔

نئے ری ایکٹرز کی تعمیر کے لیے رقم سرکاری خزانے یا قرض لے کر حاصل کی جائے گی !

ترقی یافتہ ملکوں کو شمسی بجلی کی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کے پاس روایتی بجلی بہت ہے۔ مہنگا ہونے کے باوجود وہ ممالک اِس ماحول دوست متبادل پر توجہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ مالی لحاظ سے مضبوط ہیں۔‘

لیکن پاکستان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں، ہمارا ملک پیٹرول کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے پھر بھی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔

ہوا سے بجلی کی فراہمی مخصوص علاقوں میں ممکن ہے۔

پانی کے بڑے ڈیم ہمالیہ کے ساتھ ہیں اور ہندوستان مسلسل رکارٹیں کھڑی کرتا رہتا ہے۔

اب چین سے تجارتی معاملات کی جو پیش رفت ہوئی ہے اس کی مدد سے بجلی گھر بھی بنائے جا سکتے۔

شمسی بجلی ایک بڑا قابلِ عمل اور بہترین حل ہے، ایک بجلی گھر کے لیے دو یا تین پینل کافی ہوتے ہیں، کاش کہ ان اقدامات پر جلز از جلد اور سنجیدگی سے عمل کر کے ملک و قوم کی تکالیف دور کی جائیں، موجودہ دور میں بجلی اور پانی کی قلت شرمناک لگتی ہے کیونہ ہمارا وطن قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے وطن میں موجود خزانوں سے بہرہ مند نہ ہو سکیں !

دبئی آ تے جاتے جب میں صحراوں کو گل و گلزار ہوتے دیکھتی ہوں تو دل باغ باغ ہونے کے بجائے اپنے وطن کے بارے میں سوچ کر خزاں رسیدہ پتے کی صورت مرجھانے لگتا ہے !

کاش کہ میری آنکھیں وہ دن دیکھیں جب لوگ پانی بجلی اور ایک صاف ستھرے پاکستان میں زندگی کی بہاریں دیکھا کریں گے  !

فرزانہ خان نیناؔں

http://www.dailymail.co.uk/news/article-5616199/Sweden-builds-electrified-road-powers-vehicle-electric-rails.html?ITO=1490&ns_mchannel=rss&ns_campaign=1490

کراچی ٹرام December 6, 2017

Posted by Farzana Naina in Cultures, Karachi, Pakistan, Pakistani.
Tags: , , , ,
add a comment

کراچی شہر جتنا قدیم ہے اس میں اتنی ہی ماضی کی یادیں چھپی ہیں، شہر کے بیشتر باسیوں کو شاید اس چیز کا علم  ہی نہیں ہوگا کہ یہاں کبھی سڑکوں پر ٹن ٹن کرتی ٹرام دوڑا کرتی تھیں جو ٹرانسپورٹ کا انتہائی اہم ذریعہ تھیں

قیام پاکستان کے بعد لوگوں کا اندرون ملک سفر کا بڑا ذریعہ ریل گاڑی تھی لیکن اندرون شہر کے لئے آمد و رفت کا اہم ذریعہ ٹرام ہوا کرتی تھی گو کہ اس وقت مالی اعتبار سے مضبوط افراد کے پاس ہی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن عام شہری تانگوں یا ٹرام میں ہی سفر کیا کرتے تھے۔ جن راستوں سے دن میں کم از کم ایک بار ہمارا گزر ہوتا ہے وہاں کبھی ٹرام بھی چلا کرتی تھی لیکن آج اس کی باقیات کا بھی کوئی وجود نہیں لیکن وہ سڑکیں آج نئے ناموں سے جانی

جاتی ہیں۔

ٹرام ایک چھوٹی ریل گاڑی نما سفری گاڑی تھی جو پٹڑیوں پر چلتی تھی جس میں 60 سے 70 افراد کی بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش تھی اور مسافروں کے بیٹھنے کے لئے چاروں اطراف سیٹیں تھیں جب کہ درمیان میں مسافروں کے کھڑے ہونے کی جگہ۔ ٹرام میں کوئی شیشے نہیں بلکہ صرف ایک چھت اور کھڑکیوں کی جگہ بڑ ے بڑے ہوادان ہوتے تھے جو ہنگامی صورت میں ایگزٹ ڈور کا بھی کام دیتے تھے، اگر یوں کہا جائے کہ ٹرام اپنے زمانے کی جدید مسافر گاڑی تھی تو یہ غلط نہ ہوگا۔

آج کراچی آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پھیل چکا ہے لیکن آج سے 50 سال قبل کراچی کے نقشے پر اولڈ سٹی ایریا ہی تھا اور یہیں ٹرام چلا کرتی تھی۔ بندر روڈ جسے آج ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے یہاں ٹرام کا ایک طویل ٹریک تھا جو گرو مندر سے شروع ہوکر ٹاور پر ختم ہوتا تھا اور اسی ٹریک سے مزید دو ٹریک نکلتے تھے ایک کیپری سینما سے سولجر بازار کو جاتا تھااور وہاں سے سیدھا گرومندر اور اسی طرح ایک ٹریک کینٹ اسٹیشن سے سیدھا بندر روڈ پر آکر ملتا تھا۔ ایم اے جناح روڈ کے عین وسط میں جہاں آج دونوں سڑکوں کو تقسیم کرنے کے لئے ڈیوائڈر بناہے وہیں ٹرام کی پٹڑیاں بچھی تھیں اسی طرح کینٹ اسٹیشن سے ایمپریس مارکیٹ اور وہاں سے سیدھا ایم اے جناح روڈ تک سڑک کے بیچ و بیچ پٹڑیاں آتی تھیں۔

کراچی کے70 سالہ بزرگ شہری مشتاق سہیل ٹرام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ٹرام اپنے زمانے کی تیز ترین اور پرکشش سواری ہوا کرتی تھی جو شہر کے مرکز میں چلا کرتی تھی اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا کا کوئی اسٹاپ نہیں ہوتا تھا اس لئے مسافر چلتی ٹرام پر چڑھا کرتے، جس طرح آج اگر آپ کسی مسافر بس ڈبلیو گیارہ، یا جی سترہ میں سفر کریں تو ان میں بھی مسافروں کو اکثر چلتی بس سے اترنا پڑتا ہے ایسا ہی کچھ ٹرام میں بھی تھا۔ مشتاق سہیل کے مطابق جب کبھی ہمیں تغلق ہاؤس سے ٹاور جانا ہوتا تو تبت سینٹر تک پیدل چلا کرتے اور وہاں ٹرام کا انتظار کرتے اور پھر 10 سے 15  منٹ میں ٹاور پہنچ جایا کرتے تھے، ٹرام میں سفر کرنے کے کچھ اصول تھے کہ آپ کو بھاری بھرکم سامان لے جانے کی ہرگز اجازت نہیں تھی ہاں اگر ایک آدھ بیگ ہو جسے گود میں ہی رکھ لیا جائے تو اسکی اجازت تھی۔

ٹرام کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں ڈرائیور کے لئے کوئی الگ سے ڈرائیونگ سیٹ نہیں تھی اور وہ بالکل اگلے حصے میں کھڑا ہوکر ایک ہاتھ سے گھنٹی بجاتا رہتا اور دوسرے ہاتھ سے پٹڑی پر چلنے والے لوگوں کو ہٹنے کا اشارہ کرتا رہتا اور دن بھر یہی سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 1975 تک جب تک ٹرام چلتی رہی اس کا کرایہ دس پیسے تھا اگر آپ کو گرومندر سے ٹاور جانا ہو یا کینٹ اسٹیشن سے ٹاور یا صدر آنا ہو تو اس کا کرایہ دس پیسے ہی تھا اور اس زمانے میں چونکہ کوچز اور بسیں نہیں تھیں تو اکثر لوگ ٹرام سے ہی سفر کیا کرتے تھے۔

مشتاق سہیل نے اپنے ماضی کو کھریدتے ہوئے بتاتا کہ اس زمانے میں کراچی مختصر اور بہت پرامن شہر ہوا کرتا تھا جو اولڈ سٹی ایریا اور لالو کھیت دس نمبر تک ہی محیط تھا، سوک سینٹر کے قریب قریب اور پیرکالونی سے آگے کچھ نہیں تھا اور اس وقت بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ شہر سے 12 میل پرے ہے کیکل بیلی بستی یونیورسٹی اور یونیورسٹی جانے کے لئے 40 فٹ کی کچی سڑک تھی جس پر نہ لائٹ تھی اور نہ ہی اسے پکا کیا گیا تھا اور آج جہاں سوئی گیس کا دفتر ہے وہاں لائٹ ہوا کرتی تھی لیکن قریبی علاقے ویران تھے جب کہ طالبعلم عموماً تانگوں پر یونیورسٹی جایا کرتے تھے۔ 60 کی دہائی میں اہم سڑکوں پر ٹرام کے علاوہ ڈبل ڈیکر، بھگیاں اور تانگے چلا کرتے تھے اور انتہائی محدود تعداد میں چند ایک بسیں بھی تھیں اور وہ یہی خستہ حال ون ڈی، فور ایل وغیرہ بسیں تھیں جو آج بھی مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جارہی ہیں جو اسی دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

عام طور پر بھگیاں اور تانگے بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) سے سولجر بازار سے قائداعظم کے مزارسے ہوتے ہوئے خداداد کالونی اور لائنز ایریا میں چلتے تھے اور لائنز ایریا میں سینٹ پیٹرکس اسکول سے چند قدم کے فاصلے پر اس وقت بھی گھوڑوں کا اصطبل موجود ہے جو اسی دور کی یادگار ہے۔ مشتاق سہیل نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ اس زمانے میں کراچی کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں جن راستوں پر تانگے اور بھگیاں چلا کرتی تھیں وہاں صبح سویرے پانی سے بھرے ٹینکر آتے اور پھر بڑے بڑے پائیپوں کے ذریعے سڑکوں کی دھلائی کا کام علی الصبح مکمل کرلیا جاتا جس کے بعد سورج نکلنے تک جمع شدہ پانی خشک ہوجاتا اور یہ مشق ہفتہ وار بنیاد پر کی جاتی تھی۔

ایک اور بزرگ شہری محمد علی بابا ٹرام کو جہاز کا درجہ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارے دور میں غربت انتہا کو تھی، والدین کے پاس پیسے اتنے ہی ہوا کرتے تھے کہ ہمیں دو وقت کا کھانا کھلا سکیں اور ہم دن بھر اپنے والد کے ساتھ کینٹ اسٹیشن پر مزدوری کیا کرتے اور روز بڑی بڑی ریل گاڑیاں دیکھ کر تنگ سے آچکے تھے لیکن جب ٹرام کو کینٹ اسٹیشن کے باہر سے چلتا دیکھتے تو خواہش یہی ہوتی کہ اس میں سفر کیا جائے لیکن جیب میں اتنے پیسے نہ ہوتے کہ ٹرام میں بیٹھنے کی ہمت کرتے اور کبھی کبھی شرارتاً جیسی ہی ٹرام کینٹ اسٹیشن سے صدر کی جانب روانہ ہوتی تو لپک کر اس پر چڑھ جاتے اور تھوڑی ہی دور جاکر اترتے اور پھر وہاں سے دوبارہ پیدل چل کر اسٹیشن آتے۔

واقفان حال کا خیال ہے کہ محمد علی چاؤلہ کی کمپنی کی سربراہی میں چلنے والی ٹرام 1975 میں سیاست کی نذر ہوگئی جب کہ بعض حلقے کہتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور محمد علی ٹرام وے کمپنی کے درمیان ٹرام منصوبے کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا جس کے بعد اسے بند کرنا پڑا لیکن ایک مرتبہ پھر 39 سال بعد سندھ حکومت اولڈ سٹی ایریا میں ٹرام منصوبہ دوبارہ شروع کرنے پر غور کر رہی ہے، لیکن صدر اور اولڈ سٹی ایریا اتنا گنجان ہوچکا ہے کہ یہاں اب ٹرام چلانے کی گنجائش نہیں اور بہتر یہی ہوگا کہ صدر کا ٹریفک متبادل راستوں پر موڑنے کے لئے میٹرو بس طرز کے منصوبے شروع کئے جائیں۔

کراچی میں ٹرام کی مختصر تاریخ :

ایسٹ انڈیا ٹرام وے کمپنی کی جانب سے 10 اپریل1885 کو کراچی میں ٹرام سروس کا افتتاح کیا گیا، ابتدا میں ٹرام اسٹیم انجن پر چلتی تھی لیکن فضائی آلودگی اور شہریوں کی تکلیف کے پیش نظر ایک سال بعد ہی اسے گھوڑوں پر منتقل کردیا گیا یعنی ہر ٹرام کے آگے دو گھوڑوں کو باندھا جاتا جو اسے کھینچ کر منزل تک پہنچانے کا کام دیتے اور ایک عرصہ تک ٹرام کو چلانے کے لئے گھوڑوں کا استعمال کیا گیا۔1910میں پہلی مرتبہ ٹرام کو پیٹرول انجن پر منتقل کیا گیا اور پھر1945 میں اسے ڈیزل انجن سے چلایا جانے لگا۔ ابتدا میں ٹرام کیماڑی سے ایم اے جناح روڈ تک چلا کرتی تھی اور وقت گزرنے کے ساتھ اسے سولجر بازار اور کینٹ اسٹیشن تک بڑھایا گیااور اس طرح ایک ٹریک نشتر روڈ سے ایمپریس مارکیٹ تک بھی بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی پورا ٹرامنصوبہ کراچی کے شہری محمد علی چاؤلہ کو فروخت کرکے رخصت ہوگئی اور1975 تک ٹرام کا سارا نظام محمد علی ٹرام وے کمپنی کے پاس ہی رہا۔

کراچی میں ٹراموے کمپنی کے کاروبار کا آغاز کا سہرا کراچی کے میونسپل سیکریٹری اور معروف انجینئر اور آرکیٹکٹ مسٹر جیمز اسٹریچن کے سر تھا۔ انہوں نے 1881ء میں لندن کے مشتر ایڈورڈ میتھیوز کو ٹراموے کی لائن بچھانے کا ٹینڈر دیا مگر ان لائنوں کی تنصیب کا کام 1883ء میں شروع ہوسکا۔ اکتوبر 1884ء میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور 20 اپریل 1885ء کو کراچی میں پہلی مرتبہ ٹرام چلی۔ اس پہلی ٹرام میں سفر کرنے والوں میں سندھ کے اس وقت کے کمشنر مسٹر ہنری نیپئر بی ارسکن بھی شامل تھے۔

شروع شروع میں یہ ٹرام بھاپ سے چلائی جاتی تھی مگر اس بھاپ سے ایک جانب شور پیدا ہوتا تھا اور دوسری جانب فضا میں آلودگی میں اضافہ ہوتا تھا چنانچہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اس کو بند کردیا گیا بعد میں اس کی جگہ چھوٹی اور ہلکی ٹراموں نے لی جنہیں گھوڑے کھینچا کرتے تھے کچھ عرصہ کراچی میں دو منزلہ ٹرامیں بھی چلتی رہیں‘ یہ ٹرامیں بھی گھوڑے ہی کھینچا کرتے تھے۔

بیسویں صدی میں یہ ٹرامیں ڈیزل کی قوت سے چلنے لگیں۔ کراچی میں ٹراموے کے نظام کا مرکز صدر میں ایڈولجی ڈنشا ڈسپنسری تھی۔ اس ڈسپنسری سے ٹراموں کے کئی روٹ شروع ہوتے تھے جو گاندھی گارڈن‘ بولٹن مارکیٹ اور کینٹ ریلوے اسٹیشن تک جایا کرتے تھے۔

یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی 500 روپے سالانہ فی میل کے حساب سے ٹرام لائنوں کی رائلٹی کراچی میونسپلٹی کو ادا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ٹراموے کا یہ نظام محمد علی نامی ایک کاروباری شخص نے خرید لیا اور اس کا نام اپنے نام پر محمد علی ٹراموے کمپنی رکھ لیا۔ کمپنی کے زمانہ عروج میں کمپنی کے پاس 63 ٹرامیں تھیں اور اس کا عملہ آٹھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ لیکن ایک وقت وہ بھی آیا جب کمپنی کے پاس فقط پانچ ٹرامیں رہ گئی تھیں۔

30 اپریل 1975ء کو کراچی میں نوّے سالہ قدیم ٹراموے کمپنی نے اپنا کاروبار بند کرنے کا اعلان کردی

۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹرام آخری مرتبہ چلی اور پھر یہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا

Coutesey of Newspapers.

Alif Laila Books August 2, 2012

Posted by Farzana Naina in Karachi, Literature, Pakistan, Urdu, Urdu Literature.
Tags: ,
1 comment so far

مافوق الفطرت قصے کہانیوں سے تقریبا ہر بچے کو لگاؤ ہوتا ہے، جس کا ثبوت آج کے دور کے ”ہیری پوٹر” پڑھنے والے بچے ہیں۔

میرا بچپن بھی ایسی ہی کہانیوں کے درمیان پر لگا کر اڑتا تھا، کبھی جادویٔ قالین تو کبھی دیو مالایٔ قصے، پریاں، دیو زاد، شہزادے اور شہزادیاں، یہی بچپن کی دنیا تھی، ہزار داستان تو اکثر و بیشتر محلے کی لایٔبریری سے لا کر پڑھی جاتی، پھر نیند کی وادی اس فینٹسی لینڈ میں لے جاتی ۔۔۔۔۔۔۔ ۡ

قصہ مختصر کہ پردیس نے ہاتھ بڑھا کر اپنی جانب کھینچا تو یہ کہانیاں اور ان کہانیوں سے نکلتی ہویٔ کہانیاں سب وہیں کی وہیں دھری رہ گیٔں ۔۔۔۔۔۔!۔

انہیں کہانیوں میں الف لیلوی قصوں کی کتاب بھی تھی جو بعد کے برسوں میں ذہن کے کسی گوشے سے نکل آیٔ۔۔۔۔۔

اب میری جستجو کا سفر شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کتاب مل تو گیٔ جو میں اٹھا لایٔ مگر اس کی خستہ حالت کی بنا پر محفوظ کرنا مشکل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایک اور کراچی یاترا میں بھایٔ کی منت سماجت کر کے اردو بازار کو کھنگالنا شروع کیا (چونکہ وہ علاقہ اس جگہ سے خاصی دور ہے جہاں بھایٔ رہتے ہیں اور یوں بھی اردو بازار اکیلے جانا کافی غیر محفوظ سا لگتا ہے) ۔۔۔

خیر داستان الف لیلیٰ مجھے مل گیٔ تھی  جو میں سنبھال سنبھال کر اپنے سوٹ کیس میں نت نۓ جوڑوں کے بجاۓ کتابوں کے انبار میں رکھ کر لے آیٔ۔

اب بھی کبھی کبھار اس کا مطالعہ اور اس میں استعمال کی ہویٔ اردو زبان کے الفاظ ورطۂ حیرت میں غرق کردیتے ہیں۔

نام کتاب: الف لیلہ : مترجم: رتن ناتھ سرشار

صفحات: جلد اوّل 342، جلد دوم 321، جلد سوم 464، جلد چہارم 566

قیمت: جلد اوّل 795 روپے، جلد دوم 795 روپے، جلد سوم 895 روپے، جلد چہارم 895 روپے

ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان۔ کراچی

الف لیلہ دنیا میں کہانیوں کی مشہور و مقبول ترین کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ اسے شام میں لکھا گیا۔ کس نے لکھا؟

کسی ایک نے یا زیادہ نے یا یہ کہانیاں وہاں کے قصہ گو سنایا کرتے تھے جسے وہاں کے کسی مصنف نے لکھ کر ایک جگہ جمع کر دیا، اس بارے میں اب تک یقین سے کچھ نہیں کہا گیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد یہ ایرانی، مصری اور ترک زبانوں میں پہنچی اور ان زبانوں کے قصہ گو اس میں اضافے کرتے رہے۔

بعد میں جب یہ کہانیاں ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئیں تو اس نام ’الف لیلۃ و لیلۃ‘ یعنی ’ایک ہزار ایک راتیں‘ ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد کسی لکھنے والے نے ان کہانیوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

الف لیلہ کی کہانیوں کی کہانی کچھ یوں ہے کہ سمرقندکا ایک بادشاہ شہریار اپنی ملکہ کی بے وفائی سے دل برداشتہ ہو کر عورتوں سے ہی بدظن ہوگیا، اُس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی شادی کرتا اور دلہن کو رات بھر رکھ کر صبح کو قتل کرا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی لڑکی شہرزاد نے اپنی صنف کو اس عذاب سے نجات دلانے کا ارادہ کیا اور اپنے والد کو بمشکل راضی کر کے شہریار سے شادی کر لی۔

اُس نے پہلی رات ہی سے بادشاہ کو ایک کہانی سنانا شروع کی۔ رات ختم ہوگئی مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہرزاد کو ہلاک کرنے سے باز رہا۔ ہر رات شہرزاد کہانی شروع کرتی اور صبح کے قریب اسے ایک ایسے موڑ پر ختم روکتی کہ اس میں ایک نئی کہانی کا تجسس بھرا سرا دکھائی دیتا اور اتنا دلچسپ ہوتا کہ بادشاہ اس کے بارے میں جاننے کے لیے شہرزاد کا قتل ملتوی کرتا چلا گیا۔

یہ سلسلہ اتنا ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گیا اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور ان کے ہاں دو بچے ہوگئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔

بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مورخ محمد بن اسحاق نے کتاب الفہرست میں کہانیوں کی جس کتاب کا ذکر ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے ہوا ہے وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں جو کہانی بطور نمونہ ہے وہ الف لیلہ کی پہلی کہانی ہے۔

کچھ لوگ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالتے ہیں کہ الف لیلہ پہلے ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے موجود تھی۔

اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے جو کتاب شائع کی ہے اس میں مرتیبین نے یہ تفصیل بیان کرنے پر توجہ ضروری نہیں سمجھی اگرچہ رتن ناتھ سرشار کے بارے میں خاصی تفصیل موجود ہے۔ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انھوں نے صرف پہلی جلد پر کام کیا تھا جب کہ دوسری جلد مولوی محمد اسمٰعیل نے تیار کی‘۔ لیکن اوکسفرڈ کی چاروں جلدوں پر رتن ناتھ سرشار ہی کا نام ہے۔ کیوں ہے؟ اس بارے کچھ نہیں کہا گیا۔

یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب آنتون گلاں کو اس کتاب کا مخطوطہ 1690 میں ملا اور اس نے اس کا فرانسیسی ترجمہ گیارہ سال بعد شائع کیا، یہی ترجمہ اردو سمیت کم و بیش دوسری زبانوں میں ہونے والے تمام تراجم کی بنیاد بنا۔

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں الف لیلہ اور اس نوع کی دوسری کتابوں کے انتہائی سستے اور خراب ایڈیشن ملا کرتے تھے لیکن اب وہ ایڈیشن بھی دکھائی نہیں دیتے۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سرشار کی الف لیلہ کا ایک تلخیص شدہ ایڈیشن انتظار حسین اور سید وقار عظیم ترتیب دیا تھا جو لاہور سے 1962 میں شائع ہوا تھا اس میں مولوی اسمٰعیل کی تیار کردہ دوسری جلد کی کہانیاں شامل نہیں تھیں۔ اب یہ ایڈیشن بھی دستیاب نہیں ہے۔

اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے چار جلدوں شائع ہونے والی الف لیلہ کے بارے میں اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ رتن ناتھ سرشار ہی کی پہلی جلد ہے یا اس میں دوسری تمام کہانیاں بھی شامل ہیں۔

چوتھی جلد 784ویں رات پر ختم ہوتی ہے اور پانچویں جلد زیر طبع ہے، ہو سکتا ہے کہ پانچویں جلد میں اس باتوں کا بھی خلاصہ کر دیا جائے لیکن ان باتوں سے کا چار جلدوں میں شامل کہانیوں کی دلچسپی سے کوئی تعلق نہیں۔

الف لیلہ کی اہمیت یہ ہے کہ عام لوگ تو اس کا لطف اٹھا ہی سکتے ہیں فکشن لکھنے والوں کے لیے خاص طور پر یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی زبان ضرور ایسی ہے جو اردو کے بہت سے اساتذہ کے لیے بھی امتحان ہو سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو اردو جاننے سے دلچسپی رکھنے والے ہر گھر میں ہونا چاہیے۔

اوکسفرڈ یونیورسٹی کا ایڈیشن انتہائی عمدہ ہے۔ عام خریداروں کے لیے اس کی قیمت کچھ زیادہ ہو سکتی ہے لیکن عمدگی کو دیکھتے ہوئے زیادہ نہیں ہے۔

سیریز کے ایڈیٹر شمس الرحمٰن فاروقی ہیں جو اردو کے معروف نقاد، ناول و افسانہ نگار ہونے کے علاوہ ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’شب خون‘ کے مدیر رہے ہیں جب کہ ایڈیٹر اجمل کمال ہیں جو پاکستان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ’آج‘ کے مدیر ہیں اور اپنے ترجموں کے علاوہ تنقیدی مضامین اور کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔

بشکریہ : انور سِن رائے آف بی بی سی

Bhutto – The Movie May 17, 2010

Posted by Farzana Naina in Karachi, News, Pakistan, Pakistani, Politics, Sindh.
Tags: , ,
add a comment

پاكستان كى سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو كى زندگى پر کلِک مارک سیگل نے ’بھٹو‘ كے نام سے ایك دستاویزى فلم بنائى ہے۔۔كینیڈا كے مشہور دستاویزى فلمى میلے ’ہاٹ ڈاكس‘ میں ایک سو پندرہ منٹ دورانیے پر محیط اس فلم كی نمائش کی گئی ہے۔

اس فلم میں بختاور بھٹو زردارى كا تیار كیا ھوا نغمہ بھى شامل كیا گیا ہے۔

فلم میں بھٹو خاندان كو امریكہ كے كینیڈى خاندان سے مشابہت دى گٰئى ہے۔ اس فلم میں بینظیر، ان كے والد ذوالفقار على بھٹو اور شوہر آصف على زردارى كى شخصیتوں كا احاطہ كیا گیا ہے۔

کلِک فلم كى كہانى پاكستان بننے سے پہلے سےشروع ہوتى ہے اور اس میں پاكستان كا كیس بطور ’نیوكلیئر نیشن‘ یعنی جوہری ملک بہت اچھے طریقے سے پیش كیا گیا ہے۔

اس میلے میں فلم كا افتتاحى شو یکم مئی کو ہوا جس كے لیے تمام ٹکٹ پہلے ہى بِك ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود لوگوں كى ایك بڑى تعداد بارش كے باوجود مشہور بلور سنیما گھر كے باہر چانس كى ٹكٹوں پر داخلے كے لیے انتظار كرتى رہى۔
اس فلم كو جنورى میں مشہور امریكى فلمى میلوں سن ڈانس فلم فیسٹویل اور شكاگو فلم فیسٹیول میں اعزازت ملے ہیں

میلے میں فلم کا دوسرا شو چار مئی کو ہے۔

فلم میں پاكستان كے سابق صدر پرویزمشرف، دانشور طارق على، صنم بھٹو، دفاعی امور کے ماہر شجاع نواز، امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانى، امریکہ کی سابق وزیر خارجہ كنڈولیزا رائس، بینظیر کے شوہر آصف على زردارى، برطانوى صحافى كرسٹینا لیمب، بینظیر کے دوست اور مشیر مارك

سیگل اور مسلم لیگ نواز كے رہنما خرم دستگیر كے علاوہ بینظیر كے تینوں بچوں كے انٹرویو قابل ذكر ہیں۔

اس فلم كو میلے کی پانچ اہم دستاویزی فلموں میں شمار كیا جا رہا ہے اور حال ہى میں اقوام متحدہ كى بینظیر قتل پر تفتیشى رپورٹ نے اس فلم كى اہمیت بڑھا دى ہے۔

فلمى مبصر اس فلم كو اس سال كى بہترین دستاویزى فلم كے اعزاز كى توقع كر رہے ہیں۔

فلم میں بتایا گیا ہے كہ بینظیر كے بچے كن مشكلات سے گزرے جب وہ ان سے دور تھیں اور وہ كس طرح پلے بڑھے۔ جب بینظیر ان سے دور ہوتیں تو بچے ان كے لیے نظمیں لكھتے تھے۔

اس فلمى میلے میں شریك پاكستانى نژاد كینیڈین فلمساز حارث شیخ نے فلم پر تبصرہ كرتے ہوے كہا كہ ’اس فلم ’بھٹو‘ سے پاكستان كے بارے میں مغربى ناظرین كو بہت كچھ نیا ملے گا اور یہ ایك اچھى دستاویزى فلم ہے۔‘ (حارث شیخ اس میلے میں پیغمبر اسلام كے گستاخانہ كارٹونوں كے متعلق

بنائى اپنى فلم ’بلاسفیمى‘ پرموٹ كر رہے ہیں۔)

فلم میں صدر آصف على زردارى كى زندگى جس میں بچپن سے لے كر بےنظیر سے شادى اور پھر صدارت تك پہنچنے تك كے بارے میں بہت دلچسپ معلومات دكھائى گئى ہیں۔

بینظیر بھٹو کے بچےفلم میں بینظیر بھٹو کے تینوں بچوں کے انٹرویو شامل ہیںاس فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے كہ بینظیر كى آصف على زردارى سے ’ارینجڈ میرج‘ كن کن مراحل سے گزرى ۔فلم كے ڈائریكٹر ڈویئن بوگمین نے بتایا كہ ’اس فلم پر كام كرنا ان كے لیے ایك اچھا تجربہ رہا ہے اور پاكستان كى سیاست بڑى دلچسپ ہے۔ جس كے بارے میں كوئى كچھ نہیں كہ سكتا۔

فلم میں ذوالفقار على بھٹو كى بیٹى ایك فلم سٹار كى طرح نظر اتى ہیں جسے مغربى ناظرین نے بہت پسند كیا ہے۔ بھٹو خاندان كے بارے میں بہت سارے ایسے مناظر اس فلم میں شامل ہیں جو پہلے كھبى نہ دیكھے گئے تھے۔

اس سے قبل اس فلم كو جنورى میں مشہور امریكى فلمى میلوں سن ڈانس اور شكاگو فلم فیسٹیول میں بھى اعزازت ملے ہیں۔

ایك فلم بین فلپ ڈیوس نے بتایا كہ اس فلم نے ان كے ’پاكستان كے بارے میں كئى شكوك دور كیے ہیں‘ مگر بےنظیر كے قاتلوں كےانجام كے بارے میں عنقریب اسى طرح كى فلم ان كى شدید خواہش ہے

فلم کے پروڈیوسر مارك سیگل نے انٹرویو كے دوران بتایا كہ ’پاكستان اور بھٹو خاندان ناقابل تقسیم ہیں۔ مجھے یقین ہے كى اگر بینظیر زندہ ہوتیں تو جمہوریت كى جنگ جارى ركھتیں‘۔

Trailor of The movie Bhutto

http://www.bhuttothefilm.com/trailer.html

Courtesy of BBC

Book by Fatima Bhutto-Fine Arts in Karachi Jail April 29, 2010

Posted by Farzana Naina in Art, Karachi, Literature, Pakistan, Pakistani, Politics, Sindh.
Tags: , , , , , , , ,
1 comment so far

Flag Pakistan1

لہو اور تلوار کے گیت: فاطمہ بھٹو کی نئی کتاب

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور میر مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک نئی کتاب، ’لہو اور تلوار کے گیت، ایک بیٹی کی یادیں‘، کے نام سے لکھی ہے۔ کتاب کی تقریب رونمائی کراچی کے علاقے کلفٹن میں ہو ءی

فاطمہ بھٹو کی تازہ کتاب چار سو ستر صفحات پر مشتمل ہے جو لندن کے ایک اشاعتی ادارے جوناتھن کیپ نے شائع کروائی ہے۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی تازہ کتاب میں اپنی علیل دادی بیگم نصرت بھٹو اور والدہ غنویٰ بھٹو کے نام کی ہے۔

فاطمہ بھٹو کی کتاب کی تقریب رونمائی کلفٹن میں اس جگہ کے قریب منعقد کی گءی جہاں انیس سو چھیانوے میں فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضی بھٹو کو ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

فاطمہ نے کتاب کے سرورق پر بھٹو خاندان کی ان تمام شخصیات کے نام دیے ہیں جن کو مختلف ادوار میں ہلاک کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کا نام ہے جن کو انیس سو اناسی میں فوجی دور حکومت میں پھانسی دے دی گئی، دوسرے نمبر پر شاہنواز بھٹو جو انیس سو پچاسی میں قتل ہوئے، تیسرے نمبر پر فاطمہ کے والد میر مرتضیٰ بھٹو جو انیس سو چھیانوے میں ہلاک کیے گئے اور آخر میں بینظیر بھٹو کا نام دیا گیا ہے جنہیں دو ہزار سات میں ہلاک کیا گیا۔

فاطمہ بھٹو نے اس سے قبل دو کتابیں لکھی ہیں جن میں ایک شاعری کی کتاب اور دوسری پاکستان میں آنے والے زلزلے کے متعلق ہے۔

فاطمہ بھٹو اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے انڈیا بھی جا رہی ہیں جہاں وہ دلی، ممبئی اور دیگر شہروں میں کتاب کے متعلق تقاریب میں شرکت کریں گی۔ کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں لندن میں بھی تقاریب منعقد ہوں گی۔


کراچی جیل کے آرٹسٹ قیدی

پاکستان کی جیلوں میں ہنگاموں اور جرائم کے حوالے سے تو اکثر خبریں سننے کو ملتی ہی ہیں لیکن کراچی کی سینٹرل جیل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں قیدیوں کو مختلف صحت افزا سرگرمیوں کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

سینٹرل جیل کراچی میں قائم شعبہ فائن آرٹ چند سال پہلے قائم کیا گیا تھا جہاں اب اغوا برائے تاوان اور قتل میں ملوث قیدی پینسل، رنگ اور برش سے پینٹنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

شاید ہی پاکستان کی کسی اور جیل میں اس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہونگے۔

سینٹرل جیل کراچی کے ایک کمرے میں فائن آرٹ کی کلاس روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے جاری رہتی ہے ، یہ کمرہ قیدیوں کے آرٹ کے نمونوں کی وجہ سے عام جیل کے کمرے سے زیادہ ایک آرٹ گیلری لگتا ہے۔

فائن آرٹ کی کلاس میں سید محمد ارسلان بھی زیرتربیت ہیں۔ارسلان لندن کی ایک یونیورسٹی میں سے ایم بی ای مارکیٹنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان پہنچے اور وزارت دفاع میں ملازمت اختیار کی۔

چھ ماہ پہلے انہیں فوج کے فنڈز میں بدعنوانی کرنے کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیاہے اب وہ تین ماہ سے فائن آرٹ کی کلاس میں آ رہے ہیں۔

ارسلان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پینسل سے کام کی ابتداء کی اور آج کل وہ برش اور واٹر کلر کا استعمال کرتے ہیں۔ان کے کام میں مایوسی کے رنگ نمایاں ہیں۔ارسلان کہتے ہیں کہ دن کا اکثر حصہ فائن آرٹ کلاس میں گزر جاتا ہے مگر وہ قید ہونے کی وجہ سے رات کو کھلا آسمان نہیں دیکھ سکتے۔ انھوں نے کہا کہ قیدی ہونے کے احساسات اب وہ رنگوں میں بیان کرتے ہیں۔

حسنین سینٹرل جیل میں قائم فائن آرٹ کی کلاس کے سینیئر طالبعلم ہیں۔ وہ اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں دو سال سے قید ہیں۔حسنین کو قیدی لفظ سے سخت نفرت ہے، وہ کہتے ہیں کہ قیدی لفظ کا ٹیگ پوری زندگی معاشرے میں آپ کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔حسنین کے مطابق پاکستانی معاشرتی ڈھانچے میں قیدی یا جیل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

سینٹرل جیل کراچی اٹھارہ سو ننانوے میں قائم ہوئی تھی۔ سینٹرل جیل کراچی میں تین ہزار سے زائد ملزم قید ہیں جن میں سے بیس بائیس کے قریب قیدی فائن آرٹ کی کلاس میں باقاعدہ حصہ لیتے ہیں۔

قیدیوں کو فائن آرٹ کی تعلیم ایک آرٹسٹ سکندر جوگی دیتے ہیں۔سکندر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انہوں نے تین ماہ کا ایک شارٹ کورس قیدیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کیا ہے۔سکندر کے مطابق قیدی کام کی ابتداء سٹل ورک سے کرتے ہیں بعد میں مکس میڈیا کے ذریعے چار کول، آئل پیسٹل اور سافٹ پیسٹل پر اپنے تجربات کرتے رہتے ہیں۔

سینٹرل جیل کراچی کے سپرنٹنڈنٹ نصرت حسین منگن کا کہنا ہے کہ انہوں نے جیل کا قدیم اور خوفناک تصور تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔

Book 712 

Anna Molka Ahmed – pioneer of fine arts in Pakistan

The First Female Painter of Pakistan

Prof Anna Molka Ahmed (1917 – 1994) was a famous Pakistani artist and pioneer of fine arts in the newly born Pakistan in 1947. She was a professor of fine arts at the University of the Punjab in Lahore. She was among the pioneers of women artists in Pakistan and had been a long-time director and moving spirit behind the Fine Arts Department of the Punjab University, Lahore – the first institution that was opened to the women artists in Pakistan. “In fact she has been the facilitator of a movement that made the proactive role of women artists a possibility”. writes Nilofur Farrukh (president of International Art Critics Association, Pakistan Section). It is because of trendsetters like her that the feminist art in Pakistan is gaining strength away from traditional gender discriminatory dominance. In fact these days we are witnessing a gradual dismantling of social and gender classifications. Well this has not been easy, since a lot of women had to struggle hard to bring women atop many a prestigious positions – above men, Ana Molka Ahmed is one such women.  

“Nuclear Holocaust”

 She was born to Jewish parents, in London, UK in 1917. Her mother was Polish and father was a Russian. She studied painting, sculpture and design at St. Martin School of Arts, London. She converted to Islam at the age of 18 in 1935, before marrying Sheikh Ahmed, a would be Pakistani in October 1939. The couple moved to the Indian subcontinent in 1940-41 and settled in Lahore. Although, her marriage was over in 1951 yet she lived in Pakistan with her two daughters. She was awarded Tamgha-i-Imtiaz, President’s Pride of Performance Award in 1979, Quaid-e-Azam Award in 1982 and the Khdejatul Kubra Award in 1983 for her services in the field of fine arts education in the country. Professor Emeritus Anna Molka Ahmed set up a department, which has now become a centre of excellence for Fine Arts in Pakistan.

“The day of Resurrection – Qiyamat”

At the time of independence, there were only five or six Muslim students in the art department, and Anna Molka Ahmed went from one college to other seeking students for the arts department and thus was able to introduce art courses in the Punjab University. Her students became famous artists in the country and many of them are playing their role globally.

“The Hell (Jhahanum)”

“Heaven (Jannat)”

“A village outside Lahore”

Besides painting, she was an avid gardener. She would wear her trade mark while tending the garden, cutting hedges in new and artistic pattern, and went on painting and gardening till the very last time until she was ordered by the doctors to stop because it was straining her health badly.

Anna Molka also took to writing poetry in later part of her life.

Daylight after night.

Spring when birds sing.

Sunshine after rain.

So with life’s pain.

And confidence does not wane.

And courage sustains.

She breathed her last in 1994.

Commemorating Ana Molka, the Pakistan Post issued a Rs. 4 stamp depicting Ana’s portrait and one her masterpiece paintings. Anna Molka Ahmad created a new path and a new way of looking at objects. Her dream and passion will always serve as a guideline for emerging artists, especially the female artists of Pakistan as an inspiration to carry for the torch she ignited decades ago.

Book(154)b

The First Sindhi Topi Day – پہلا سندھی ٹوپی دن December 6, 2009

Posted by Farzana Naina in Culture, Karachi, Pakistan, Sindh, Sindhi.
Tags:
add a comment

KARACHI: The people of Sindh will celebrate a unique cultural day – the ‘Sindhi Topi (cap) Day’ – for the first time in history on December 6.

Interestingly, the day was not announced by any political party but the common people of Sindh decided to celebrate the Sindhi topi after a short message service (SMS) spread throughout the province in response to the comments of a private channel anchorperson, who criticised President Asif Ali Zardari for wearing a traditional Sindhi topi during foreign tours. Following widespread criticism of these comments, nationalist parties including Jeay Sindh Qaumi Mahaz (JSQM), Sindh Tarqi Passand Party (STPP), Awami Tahreek and other groups also supported the idea.

In anticipation of the celebrations, the sale of Sindhi topi has significantly increased and in some cities, the cap has already disappeared from the markets. The Sindhi topi is regarded one of the most essential parts of the Sindhi culture and usually Sindhi people offer this traditional cap and ajrak to their guests as a token of respect. The Sindhi topi is round in shape except a portion in front, which is cut out in different patterns to expose the forehead. Hand-woven Sindhi topis are products of hard labour and made in almost every district of the province. However, the caps produced in Tharparkar, Umerkot, Sanghar and other districts of the Mirpurkhas division are rated better and fetch a better price.

The Sindhi topi is famous all over the world including Pakistan, where not only Sindhis, but also the Pukhtoons and Baloch wear the cap. It is available in different colours but the shape remains the same. There also are two qualities, one is hard and the other is soft, which is supposed to be more sophisticated and has a high price. Another unique, distinct Sindhi cap comprises colourful embroidery and the glasswork.

The National Council of Sindhi Culture and Heritage (NCHCS), in a press statement, has asked the people of Sindh to wear a Sindhi topi along with an ajrak on Dec 6. “The common people of Sindh issued a call to observe the day, thus we too support the call and would celebrate this unique day,” said NCHCS secretary general Ram Kirshan. He added that Sindhis were a nation with a culture of which the Sindhi topi and ajrak are supposed to be the most essential and sacred entities.

“Therefore, we request every Sindhi throughout the world to wear the Sindhi topi and ajrak on the day to celebrate the great civilization of Sindh.”

NCHCS President Ibrahim Kumbhar said for the last few days, some TV channel anchorpersons and journalists have been insulting the Sindh topi, which is a sign of the centuries old Sindhi culture and identity of the Sindhi nation, and therefore the Sindhi people have decided to observe this day. “Sindhis made Pakistan and became a part of the country on the assurance that Sindh would be an independent state in Pakistan, but it did not happen. If all the states in USA have their own flag, anthem and cultural values, why not the languages spoken in Pakistan such as Sindhi, Punjabi, Pushto, Saraiki, Dhatki, Baluchi and others can be made national languages,” he said.

NCHCS office-bearers Syed Syed Jamal Shah and Ghulam Rasool Kunbhar demanded the government to take action against all those involved in insulting the Sindhi culture and asked the PPP leadership to celebrate the day officially. Abrar Kazi and Zulfqar Halepoto of the Sindh Democratic Forum (SDF) have also announced to hold a protest rally in Hyderabad against the offenders.

The Sindh government has also decided to support the call given by the people of Sindh to observe the ‘Sindhi Topi Day’ on December 6, said a press statement issued by the Chief Minister’s House on Tuesday.

Sindh Chief Minister and PPP’s provincial president Qaim Ali Shah said the Sindhi culture is based on the centuries old Indus Valley Civilisation and his government would ensure this culture continues to thrive in the province.

“Every Sindhi views the Sindhi topi and ajrak as sacred entities of the Sindhi culture and they would not tolerate any disrespect of these cultural entities,” said Shah.

“Therefore, I direct the PPP leadership to observe this day throughout the province.”

The chief minister further said the Sindhi people offer this traditional cap and ajrak to their guests as a token of respect.

“The people of Sindh must celebrate this day with full enthusiasm to show short-sighted, anti-Sindh forces that the Sindhi people will sacrifice everything to protect their culture.”

Following comments of a private channel’s anchorperson criticising President Asif Ali Zardari for wearing a traditional Sindhi topi during his foreign tours, the people of Sindh reacted severely and spread an SMS throughout the province to set December 6 as the first-ever ‘Sindhi Topi Day.’

By Amar Guriro

http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2009%5C12%5C01%5Cstory_1-12-2009_pg12_2

Old Karachi Pictures November 28, 2007

Posted by Farzana Naina in Karachi, Pakistan.
Tags: , , , ,
2 comments

Bunder Road - Karachi

1962 Jacqueline Kennedy perches on camel in Karachi

Bunder Road - Karachi

Bunder Road - Karachi

Chidiya Ghar (Gandhi Garden) Karachi

Inaugurated as Sind Arts College by Lord Reay, Governor of Bombay on 17th January, 1887 and renamed D.J. Science College (upon completion of the present structure), on 15th October, 1882. Located in the heart of old Karachi, the foundation stone for this college was laid on 19th November, 1887 by Lord Dufferin, Viceroy of India. The college is named after Diwan Dayaram Jethmal its main benefactor. The cost of construction is reported to have been Rs.186,514 out of which the Government contributed Rs. 97,193, the balance being raised through public donations.

Picture Taken By: Raja Islam

The century old heritage building of Radio Pakistan located on the main artery of the mega-metropolis, M. A. Jinnah Road went on blazing, as the studio over there had suddenly caught fire on Sunday morning “October 28th 2007”.

Welcome November 4, 2006

Posted by Farzana Naina in Blogroll, Famous Urdu Poets, Farzana Naina, Ghazal, Karachi, Kavita, Naina, Nazm, Nottingham, Pakistan, Pakistani, Pakistani Poetess, Poetess, Shairy, Sher, Sufi Poets, Urdu, Urdu Literature, Urdu Poetry.
3 comments

قلمی نام : نیناں

برطانیہ میں منظرِ عام پر آنے والی چند شاعرات میں فرزانہ نیناںؔ کا نام بڑا معتبر ہے،۔

متنوع صلاحیتوں کی مالک فرزانہ خان نیناؔں کا تعلق سندھ کے ایک سربر آوردہ خانوادے سے ہے۔

مجلسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور اپنی ادبی تنظیم نوٹنگھم آرٹس اینڈ لٹریری سوسائٹی کے تحت کئی برس سے مشاعرے و دیگر تقریبات بخوبی منعقد کرواتی رہتی ہیں جو کہ ان کی خوش سلیقگی و خوب ادائیگی کی بھرپور آئینہ دار ہیں،

اس شگفتہ وشستہ ہونہار شاعرہ کے انکل محمد سارنگ لطیفی سندھی زبان کے مشہور شاعر، صحافی اور ڈرامہ نویس تھے اور اس رحجان کا سلسلہ انہی سے جا ملتا ہے،

کراچی سے رشتہء ازدواج میں منسلک ہوکر برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں آباد ہوئیں، شعبہ ٔ ٹیلی کمیونیکیشن میں بطور انسپکٹر ملازمت کی،پھر ٹیچرز ٹریننگ اور بیوٹی کنسلٹنٹ کی تعلیم حاصل کی اور مقامی کالج میں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں ساتھ ہی میڈیا اور جرنلزم کے کورسز میں ڈپلوما بھی کیئے یوں مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی وابستگی ہوئی،

ان کے پیش کردہ پروگرام خصوصی خوبیوں کی بنا پر دلچسپ اور معلوماتی ہوتے ہیں اور اپنے انداز کی وجہ سے یورپ بھر میں بیحد مقبول ہیں،

ابتدا میں نثری کہانیاں لکھیں اور نظم سے سخن طرازی کا آغاز کیا،جبکہ نثری رنگ میں گہرائیوں کی بدولت کتابوں پر تبصرہ جات اور کالم بھی ایسے دلچسپ لکھتی ہیں کہ پڑھنے والے مزید کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں،

فرزانہ نیناںؔ کے خاص نسائی لہجے و منفرد انداز شعرگوئی نے یک لخت اہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کر کے برطانیہ کی مسلمہ شاعرات کے طبقے میں اپنا معتبر مقام بنا یا ہوا ہے ،ان کا شعری مجموعہ بعنوان ۔۔’’درد کی نیلی رگیں‘‘ منظرعام پر جب سے آیا ہے تخلیقی چشمے میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے،

منفرد نام کی طرح مجموعے کی کتابی شکل و صورت میں بھی انفرادیت ہے، ایک ہی رنگ کا استعمال شاعری میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے وہ اب سے پہلے کسی نے نہیں کیا ،پوری شاعری میں محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصاویر کی طرح اجاگر کیا گیا ہے، اشعار میں جذبوں سے پیدا ہونے والی تازگی بدرجہ اتم جھلکتی ہے، ہر مصرعے اور ہر شعر پر ان کے رنگ کی خاص نسائی چھاپ موجود ہے،

آغاز سے ہی یہ دو اشعار ان کا حوالہ بن چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے  چائے کے برتن چھوٹے تھے

Blue Flower 41

میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا

شعری مجموعہ” درد کي نيلي رگيںٰ ”  اپنے نام، کلام ميں نيلے رنگوں کي تماثيل، سائز، ہٗيت، اور تحرير کی چھپائی کے منفرد ہونے کي وجہ سے بہت سراہا گیا ہے، اگر آپ اردوشاعری کے دلدادہ ہيں، جديد شاعری کی باريکيوں سے لطف اندوز ہوتے ہيں تو يہ کتاب اپنی لابريری کی زينت ضرور بنائيں۔
اي ميل کا پتہ :

farzananaina@gmail.com
farzananaina@yahoo.co.uk

welcome blue 106

ISLAMABAD:

Mushaira held in honour of expat poet

(Reporter of Dawn news paper)

• ISLAMABAD, Jan 10: A Mushaira was organized in honour of British-Pakistani Urdu poetess, Farzana Khan ‘Naina’ at the Pakistan Academy of Letters (PAL) on Friday. The event was presided over by the PAL chairman, Iftikhar Arif.

• Mr Arif said Farzana Khan was typical of expatriate poets who had an advantage over native poets in expressing original ideas and imagery. He said this was also a fact that expatriate writers were not well at transmuting feelings with the same intensity. In his view, Farzana Khan was certainly a new distinctive voice in Urdu poetry. She used tender expressions and a strange and novel scheme in meters that reverberated with strong musical beats.

• In fact Iftikhar Arif’s verses, which he read at the end of the Mushaira, sounded like a well deserved tribute to the poetess; Mere Chirag Hunar Ka Mamla Hai Kuch Aur Ek Baar Jala Hai Phir Bujhe Ga Naheen (The Muse this time is bright, and once lighted it will not be extinguished).

• A number of senior poets read their poetical pieces at the Mushaira that was conducted by a literary organization, Danish (Wisdom).

Here, Farzana Khan surprised everyone with the range and depth in the couplet that she read “Meine Kaanon Main Pehan Lee Hai Tumhari Aawaz/Ab Meray Vastey Bekaar Hain Chandi Sona”.

She seeks inspiration for her poetry from the glades of Nottinghamshire, England, the county of Lord Byron and Robin Hood, where she had been living for over many years.

Farzana Khan is a Chair person of Nottingham Arts and Literature Society, She works as a broadcaster for Radio Faza and MATV Sky Digital, besides being a beauty therapist and a consultant for immigrants’ education.

Her book of Urdu poetry titled Dard Ki Neeli Ragen (Blue veins of pain) is a collection of 64 Ghazals and 24 Nazms.

The collection has received favourable reviews from a number of eminent Urdu poets, including Dr.Tahir Tauswi, Rafiuddin Raaz, Prof.Shahida Hassan, Prof.Seher Ansari, Ja zib Qureshi, Haider Sherazi, Sarshar Siddiqui, Naqash Kazmi, Nazir Faruqi, Aqeel Danish, Adil Faruqi, Asi Kashmiri,Prof.Shaukat Wasti, Mohsin Ehsan, who had stated that her work was marked with ‘Multicolour’ words. Everyone was impressed with her boldness as well as her delicate feelings, he added.

In addition there is an extraordinary rhythm. About technical aspects of Farzana’s work, a literary critic, Shaukat Wasti, says it deserve serious study.

Name Naina multi pastle 1

میری شاعری میرے بچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہے، یادیں طلسمَاتی منظروں کو لیئےچلی آتی ہیں

وہ منظرجو دیو مالائی کہانیوں کی طرح، الف لیلوی داستانوں کی طرح، مجھےشہرزاد بننے پر مجبور کردیتے ہیں،عمر و عیار کی زنبیل سےہر بار کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے، شہر بغداد کی گلیاں اجڑ چکی ہیں،نیل کے پانیوں میں جلتے چراغ، دھواں بن کر اوپر ہی اوپر کسی انجانے دیس میں جا چکے ہیں ، دجلہ کے دھاروں سا جلترنگ کہیں سنائی نہیں دیتا۔۔۔

گلی کےآخری کنارے پر بہنے والا پرنالہ  بنجر ہوچکا ہے جہاں اسکول سے واپس آتے ہوئےمیں،بر کھا رت میں اپنی کاپیاں پھاڑ کر کاغذ کی کشتیوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھی۔۔۔

گھر کے پچھواڑے والا سوہانجنےکا درخت اپنے پھولوں اور پھلیوں سمیت وقت کا لقمہ بن چکا ہے، جس کی مٹی سےمجھےکبھی کبھی کبھار چونی اٹھنی مل جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپل کے درخت کے وہ پتے جن کی پیپی بنا کر میں شہنائی کی آواز سنا کرتی تھی،اس کی لٹکتی ہوئی جڑیں جو مجھےسادھو بن کر ڈراتی تھیں، مہاتما بدھ کے نروان کو تلاش کرتے کرتے پچھلی صدی کی گپھا میں ہی رہ گئے ہیں۔۔۔

میری شاعری نیلگوں وسیع و عریض، شفاف آسمان کا کینوس ہے،جہاں میں اپنی مرضی کی تصویریں پینٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابن ہڈ کےاس شہر کی سرنگیں، نجانے کس طرح میڈ میرین کو لے کر مغلیہ دور کے قلعوں میں جا نکلتی ہیں۔۔۔

لارڈ بائرن اور ڈی ایچ لارنس کا یہ شہر،دھیرے دھیرے مجھے جکڑ تا رہا، ولیم ورڈز ورتھ کے ڈیفوڈل اپنی زرد زرد پلکوں سےسرسوں کےکھیت یاددلاتےرہے۔۔۔

نوٹنگھم شہر کی چوک کے وسط میں لہراتا یونین جیک، نجانے کس طرح سبز پاکستانی پرچم کے چاند تارے میں بدل جاتا ہے۔۔۔

پرانی کیسٹوں میں ریکارڈ کئےہوئےگیت اور دوہے، کسی نہ کسی طرح پائلوں میں رمبھا، سمبھا اور لیٹن کی تھرک پیدا کردیتےہیں۔۔۔

شیلےاور کیٹس کا رومانوی انداز،غالب اور چغتائی کےآرٹ کا مرقع بننےلگتا ہے۔۔۔

مجھے جوگن بنا کر ہندی بھجن سسنے پر بھی مجبور کرتی ہیں ۔۔۔ Hymnsشیلنگ کی

سائنسی حقیقتیں،میرےدرد کو نیلی رگوں میں بدلنےکی وجوہات تلاش کرتی ہیں۔۔۔

کریم کافی،مٹی کی سوندھی سوندھی پیالیوں میں جمی چاندی کے ورق جیسی کھیر بن کر مسجدوں سے آنے والی اذان کی طرح رونگھٹے کھڑے کر دیتی ہے۔۔۔۔

سونےکےنقش و نگار سے مزین کتھیڈرل، اونچےاونچے بلند و بالا گرجا  گھر،مشرق کے سورج چاچا اور چندا ماما کا چہرہ چومتےہیں۔۔۔

وینس کی گلیوں میں گھومتے ہوئے،پانی میں کھڑی عمارتوں کی دیواروں پر کائی کا سبز رنگ ،مجھےسپارہ پڑھانے والی استانی جی کےآنگن میں لگی ترئی کی بیلوں کی طرح لپٹا۔۔۔

جولیٹ کےگھر کی بالکنی میں کھڑے ہو کر،مجھے اپنے گلی محلوں کے لڑ کوں کی سیٹیاں سنائی دیں۔۔۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کےمزار اور سہون شریف سےلائی ہوئی کچےکانچ  کی چوڑیاں، مٹی کےرنگین گگھو گھوڑے جب میں تحفتا اپنےانگریز دوستوں کے لئے لائی تو میری سانس کی مالا فقیروں کے گلوں میں پڑے منکوں کی مانند بکھر کر کاغذپر قلم کی آنکھ سےٹپک گئی۔۔.

شاعری مجھےاپنی ہواؤں میں،پروین شاکر کی خوشبو کی طرح اڑانےلگتی ہے، موتئےکی وہ کلیاں یاد دلاتی ہےجنھیں میں قبل از وقت کھلاکر گجرا بنانے کیلئے، کچا کچا توڑ کر بھیگے بھیگے سفید ململ میں لپیٹ دیا کر تی تھی،اور وہ رات کی رانی جو میری خوابگاہ کی کھڑکی کے پاس تھی ،آج بھی یادوں کی بین پر لہراتی رہتی ہے۔۔۔۔
شاعری ایک نیلا نیلا گہرا سمندر بن کر ان لہروں کے چھینٹے اڑانے پر مجبور کردیتی ہے،جہاں میں اتوار کو گھر والوں کےساتھ جاکر اونٹوں کےگلے میں بجتی گھنٹیوں کےسحر میں مبتلا ،سیپیاں چنتےچنتے، ریت میں سسی کےآنچل کا کنارہ،ڈھونڈنے لگتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنہری دھوپ کےساتھ بچپن کےاس گاؤں کی طرف لےجاتی ہےجہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنےجاتےتھے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معصوم سہیلیوں کے پراندوں میں الجھا دیتی ہےجن میں وہ موتی پرو کر نشانی کےطور پر مجھےدیتی تھیں،تاکہ میں انھیں شہر جاکر بھول نہ جاؤں۔۔۔

شاعری وہ نیل کنٹھ ہےجو صرف گاؤں میں نظر آتا تھا،

جس کے بارے میں اپنی کلاس فیلوز کو بتاتےہوئے میں ان کی آنکھوں کی حیرت سےلطف اندوز ہوتی اورصوفی شعرا کےکلام جیسا سرور محسوس کرتی۔۔۔

شاعری ان گلابی گلابوں کےساتھ بہتی ہےجنھیں میں اپنےابو کے گلقند بنانے والےباغوں سےتوڑ کر اپنی جھولی میں بھرکر،ندیا میں ڈالتی اوراس پل پرجو اس وقت بھی مجھےچینی اور جاپانی دیو مالائی کہانیوں کےدیس میں لےجاتا تھا گھنٹوں کھڑی اپنی سہیلیوں کےساتھ اس بات پر جھگڑتی کہ میرےگلاب زیادہ دور گئےہیں۔۔۔۔

صفورے کےاس درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھادیتی ہےجو ہمارے باغیچےمیں تھا اور جس کےنیلےاودے پھول جھڑ کر زمین پر اک غالیچہ بنتی،جس پر سفر کرتے ہوئےمجھے کسی کنکورڈ کی چنگھاڑ نہیں سنائی دیتی تھی۔۔۔

شاعری بڑے بھائی کی محبتوں کی وسعتوں کا وہ نیلا آسمانی حصار ہے،جو کبھی کسی محرومی کےاحساس سےنہیں ٹوٹا۔۔۔۔

کڑوے نیم تلے جھلنے والا وہ پنکھا ہے جس کے جھونکے بڑی باجی کی بانہوں کی طرح میرے گرد لپٹ جاتےہیں۔۔۔

شاعری سڑکوں پر چھوٹے بھائی کی موٹر سائیکل کی طرح فراٹےبھرتی ہےجس پر میں اس کےساتھ سند باد جیسی انگریزی فلمیں دیکھنے جاتی اور واپسی پر جادوگر کے سونگھائے ہوئے نیلے گلاب کےاثر میں واپس آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اان تتلیوں اور مورنیوں کے پاس لےجاتی ہےجو چھوٹی بہنوں کی صورت، آپی آپی کہہ کر میرے گرد منڈلاتی رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ان چڑیوں کی چوں چوں سنواتی ہےجن کو میں دادی کی آنکھ بچا کر باسمتی چاول، مٹھیاں بھر بھر کے چپکے سے چھت پر کھلاتی اور ان کی پیار بھری ڈانٹ سنا کرتی تھی۔۔۔

شاعری میرے طوطے کی گردن کے گرد پڑا ہوا سرخ کنٹھا بن جاتی ہے، جس سےٹپکنے والے سرخ لہو کےقطرے یادوں کے دریا میں گرتے ہی لعل و یاقوت بن کر راجکماری کےمحل کو جانےوالی سمت بہتے ہیں، انار کی نارنجی کچی کلیاں ہیں جو نگہت اور شاہین،اپنی امی سےچھپ کر میرے ساتھ توڑلیتیں، جس کے بعد بقیہ انار پکنے تک گھر سے نکلنا بند ہوجا یا کرتا تھا۔۔۔۔

یہ شاعری مجھےمولسری کی ان شاخوں میں چھپادیتی ہے جن پر میں اور شہنازتپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر ان کی گٹھلیاں راہگیروں کو مارتےاور اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتے۔۔۔

یہ میری سہیلی شیریں کےگھر میں لگے ہوئےشہتوت کےکالےکالے رسیلے گچھوں جیسی ہے جن کا ارغوانی رنگ سفید یو نیفارم سے چھٹائے نہیں چھٹتا ۔۔۔۔

شاعری مجھےان اونچی اونچی محرابوں میں لےجاتی ہے جہاں میں اپنی حسین پھپھیوں کو کہانیوں کی شہَزادیاں سمجھا کرتی ،جن کے پائیں باغ میں لگا جامن کا درخت آج بھی یادوں پر نمک مرچ چھڑک کر کوئلوں اور پپیہوں کی طرح کوکتا ہے، شاعری بلقیس خالہ کا وہ پاندان یاد دلاتی ہے جس میں سپاری کےطرح ان لمحوں کےکٹے ہوئےٹکڑے رکھے ہیں جن میں ،میں ابن صفی صاحب سے حمیدی ،فریدی اور عمران کےآنے والے نئے ناول کی چھان بین کرتی ، خالہ کےہاتھ سے لگے ہوئے پان کا سفید چونا،صفی صاحب کی سفید  کار کی طرح اندر سےکاٹ کر تیز رفتاری سےاب بھی گزرتا ہے۔۔۔

یہ کبھی کبھی مجھےموہنجو دڑو جیسے قبرستان میں کھڑا کر دیتی ہے ، جہاں میں اپنے ماں ،باپ کےلئے فاتحہ پڑھتے ہوئے کورے کانچ کی وقت گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں،مصری ممیوں کی طرح حنوط چہروں کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں،نیلگوں اداسیاں مجھےگھیر لیتی ہیں، درد کی نیلی رگیں میرے تن بدن پر ابھرنےلگتی ہیں،شب کےنیلگوں اندھیرےمیں سر سراتی دھنیں، سایوں کی مانند ارد گرد ناچنےلگتی ہیں،ان کی نیلاہٹ ،پر اسرار طمانیت کے ساتھ چھن چھن کر دریچوں کا پٹ کھولتی ہے، چکوری کی مانند ،چاند ستاروں کے بتاشے سمیٹنے کی خواہشیں کاغذ کے لبوں پر آجاتی ہیں ،سقراط کے زہریلے پیالےمیں چاشنی ملانےکی کوشش تیز ہو جاتی ہے، ہری ہری گھاس کی باریک پتیوں پہ شبنم کی بوندیں جمتی ہی نہیں،والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نے بہن بھائی اور ہمجولیاں چھین لیں، درد بھرے گیت روح چھیلنے لگے،حساسیت بڑھ گئی  ڈائری کے صفحے کالے ہوتے گئے، دل میں کسک کی کرچیاں چبھتی رہیں، کتابیں اور موسیقی ساتھی بن گئیں، بے تحاشہ مطالعہ کیا، جس لائیبریری سےجو بھی مل جاتا پیاسی ندی کی مانند پی جاتی،رات گئے تک مطالعہ کرتی، دنیا کےمختلف ممالک کےادب سے بھی شناسائی ہوئی، یوں رفتہ رفتہ اس نیلےساگر میں پوری طرح ڈوب گئی۔ ۔ ۔

شاعری ایک اپنی دنیا ہےجہاں کچھ پل کےلئےاچانک سب کی نظر سےاوجھل ہو کر میں شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، اسی لیئےمیری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائے میری اپنی راہ فرار کی جانب جاتی ہے، ورنہ اس دنیا میں کون ہےجس کو ان سےمفر ہے!۔

  شاعری مجھے نیلے نیلےآسمان کی وسعتوں سے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے سپید ٹکروں کی مانند، خواب وخیال کی دنیا سے نکال  کر، سرخ سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے گھروں کی اس سرزمین پراتار دیتی ہے جہاں میں زندگی کے کٹھن رستوں پر اپنے شوہر کے ساءبان تلے چل رہی ہوں، جہاں میرے پھول سے بچوں کی محبت بھری مہک مجھے تروتازہ و سرشار رکھتی ہے۔Name Naina Iceblue heart

My Poetry Book October 31, 2006

Posted by Farzana Naina in Blogroll, British Pakistani Poetess, Famous Pakistani in uk, Famous Urdu Poets, Farzana, Farzana Naina, Karachi, Kavita, Literature, Naina, Nazm, Nottingham, Pakistani, Pakistani Poetess, Poetess, Poetry, Shairy, Sher, Sindh, Sindhi, Urdu, Urdu Literature, Urdu Poetry.
2 comments

Red and Pink flowersColour changing flowerRed and Pink flowersColour changing flowerاي ميل کا پتہ ::

farzananaina@gmail.com

farzana@farzanaakhtar.com
farzananaina@yahoo.co.uk