jump to navigation

Raees uddin Raees – شہرِ بے خواب

Butterfly Bar 12

رئیس الدین رئیس کا بے خواب شہر

 

رئیس الدین رئیس اردو شاعری کے حوالے سے انڈیا میں مقیم ایک معتبر و معروف نام کے حامل شاعر ہیں، اس وقت میرے زیر نظر ان کے مجموعۂ کلام ’’ شہر بے خواب ہے‘‘کی نظمیں ، غزلیں اور رباعیات ہیں جواحساس کے چراغوں کی روشنی میرے ارد گرد پھیلا رہی ہیں، سادہ کاغذوں پر تصویریں بنا رہی ہیں، پرندوں کو پیڑوں سے ہجرت پر آمادہ ہوتے دیکھ رہی ہوں میں، اس شہر بے خواب میں تعبیروں کی آس ہے، چہرے آئینوں سے لگے ہوئے ہیں، جذبوں کا سمندر امڈ رہا ہے، لکھنے والا کبھی سکندر تو کبھی قلندر کا روپ

دھار رہا ہے۔

 

میں نے عمر کی سب سانسوں میں تیرا ہی اک نام لیا
غافل تو خود سے بھی نہیں تھا بھولا تجھ کو کب اللہ
تیری عنایت سے کہتے ہیں مجھ کو رئیس الدین رئیس
تیری عطا سے ہوا ہے روشن میرا نام و نسب اللہ

*

یہ الفاظ حمد و ثناء کے حسن سے معمور ہونے کے ساتھ ساتھ اس بات کے عکاس ہیں کہ رئیس الدین صاحب کی شخصیت میں عاجزی گندھی ہوئی ہے، جذبۂ شوق اور ریاضت کے بغیر تخلیق ممکن نہیں ہوتی اور تخلیق کار اس ضمن میں سب سے پہلے اپنےخالق کے آگے سر بسجود ہوتا ہے جس کے صلے میں اس کوبھی فن کی دولت ودیعت ہوتی ہے، اس دولت کے ملنے پر اس کا استعمال سلیقے اور ہنر سے مزید نکھرتا ہے، رئیس الدین رئیس کی تمام شاعری میں خوب سے خوب تر کی بنُت صاف نظر آتی ہے، ان کا رنگِ سخن جا بجا مفہوم کے پینترے بدل بدل کر جاگزیں ہورہاہے،اس طرح کے نقش الفاظ کے ذریعے ابھارنا کوئی آسان کام نہیں، اس پر موضوعات کی وسعت اور تنوع ہم سے بیساختہ داد طلب ہے۔

 

رہے ہیں روح کی مانند میرے ساتھ رئیس

مشاہدات قلم اور ورق قرینِ خیال

کتاب کا مطالعہ قافیوں اور ردیف کے منفرداستعمال اور جدید لہجے میں ڈھلتا گیا جو کہ کم ہی شعراء کا خاصہ ہے، برتے ہوئے الفاظ کو نیا جامہ پہنا کر خوبصورت و عمیق موضوع سمیت شعر کہنا مذاق نہیں، سپنوں اور آدرشوں کی پرورش کرتی ہوئی شاعری آپ کو اپنے اندر جذب کرنے لگتی ہے، ان کے اشعار فقط شعری فضا نہیں تخلیق کر رہے بلکہ زندگی کی سچائیوں کی جانب رخ موڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔

 

میں پڑھ رہا ہوں نئے وقت کی نئی تہذیب
ادب ہو پیشِ نظر کیوں مری نگاہ جھکے
وہ جس سے زخم ملے میں رئیس اسی کی طرف
نہ جانے کیوں یہ مسلسل دلِ تباہ جھکے
*
میں سنگ و خشت ہوا ہوں جسے بنانے میں
وہی مکان گرائیں گے یہ مکیں اک روز
*

رئیس الدین رئیس کے فن میں آفاق گیری کی صفت بھی خوب ہے، ستارے گننے کا عمل انسان کی تنہائیوں میں غالباََ فطری ہے جسے شعر میں طرح طرح باندھا گیا ہے لیکن یہاں درج ذیل اشعار ذرا دیکھئ کہ سائنس جیسا ٹھوس موضوع کس حسن و خوبی سے مصرعوں میں اتر آیا ہے۔

 

شروع ہونے کو ہے کوئی سلسلۂ امروز
کہ محوِ خواب ہوا خود ہی شاہ زادۂ شب
سکوتِ دشت کی تنہائیوں کو گنتے رہو
سیاہیوں میں ستارے ہوئے زیادۂ شب

 

دنیائے شعر میں استاد شعراء کے اشعار کی بے نظیر مثالیں موجود ہیں ، اس کے باوجود اپنی باتوں کو کہنا اور رموز و نکات سمیت نئے انداز سے کہنا اعلیٰ درجے کی شاعری ہے۔
مولانا روم جس دور میں ایک بزرگ شمس تبریز سے ملے اس وقت وہ قونیہ میں استاد تھے، بزرگ کے ملتے ہی ان پر ایسا اثر ہوا کہ وہ ان کے مرید بن گئے کیونکہ بزرگ شمس تبریز نے ان پر باطنی علوم کا دروازہ کھول دیا تھا ، جب وہ چلے گئے تو مولانا روم سے خود بخود اشعار موزوں ہونے لگے، ان کی جدائی میں سوز و گداز کی کیفیت ایک عالم وارفتگی میں شعر کہلوانے لگی جو کہ عرصہ دراز تک جاری رہی جس کے نتیجے میں ان کی مثنویات دنیا کے سامنے آئیں۔
سو شاعری کرنے والا جب تک جوش و سرمستی کے عالم سے واقف نہ ہو تب تک اچھاشعر موزوں نہیں کر سکتا، رئیس الدین رئیس کی شاعری پوری جامعیت کے ہمراہ، زندگی ، عشق اور خواب و خیال میں موجزن ہے۔

 

درد اٹھا ہے میرے سینے میں
تم بھی محسوس کرہی ہو کیا
آئنہ رکھ کے اپنے آنگن میں
چاند معکوس کر رہی ہو کیا
رنگ بکھرے پڑے ہیں منظر میں
رقصِ طاؤس کر رہی ہو کیا
*

کیا سوچ کر بھر آئیں بتادے تری آنکھیں
برسات میں لگتا ہے دھنک بھیگ رہی ہے
*

نظر اٹھاؤ ذرا چاند پا رہ پارہ کرو
اور اپنی آنکھ میں روشن کوئی ستارہ کرو
*

ہوا میں کیسی یہ نغمگی ہے فضا میں بکھری ہیں خوشبوئیں سی
کہ شاخِ دل پر غریب غنچہ نجانے کیسے چٹک گیا ہے
*

رئیس روح کے رشتے بھلا وہ کیا جانیں
جو صرف صنفِ مخالف کو جسم جانتے ہیں
*

دل میں محبتوں کے اجالے نہ تھے صفر
یہ میرے سچے پیار کے قصے نہ تھے صفر
کرتا تھا جو میں تیری عبادت نہ تھی صفر
اے میرے ہمنشیں مری الفت نہ تھی صفر
*

دعائے موسم خیمہ زن تھی ہونٹوں پر
مگر یہ دشتِ خزاں ہی مرا مقدر تھا
*

رخِ جمیل پہ زلفیں بکھیرنے والے
کچھ امتیاز تو شام و سحر میں رہنا تھا
*

عشق بے گانۂ آداب نہیں ہو سکتا
یہ سمندر کبھی بے آب نہیں ہو سکتا

 

رئیس الدین رئیس کا کلام دورِ حاضر کے ممتاز شعراء کا کلام ہے، اس شاعری کو بلا شبہ ادب کے بلند پایہ مقام پر رکھا جاسکتا ہے، فصاحت، بلاغت اور ادبی روایات کا بہاؤ کلام میں جا بجا نمایاں ہے، حقائق کی نئی توجیہہ پیش کی گئی ہے، آپ کا کلام انگوٹھی میں نگینے کے مترادف کئی الفاظ و اشعار سے مزین ہے، اس مجموعے میں شامل بیشتر اشعار ہمیں وجدان کی جانب لے جاتے ہیں، شعوری آگہی کو اجاگر کرنے میں صاحب کتاب کی شخصیت سے روشناس ہونے میں کوئی دقت نہیں ہوتی، مشاہدۂ فطرت اور علم سے ان کا سینہ کشادہ ہے، تمام شاعری مزاج،رویئے اور کیفیت سے بھرپور ہے، موضوعات کا دائرہ وسیع ہے۔
شاعر اگر غیر مجسم کی تجسیم الفاظ کے ذریعے کر لے تو یہ اس کے کمالِ فن کا انمٹ ثبوت ہوتا ہے، ان کی بیانیہ قوت انتہائی اعلی درجے کی ہے ، استعارات، تشبیہات، علامات کا استعمال منطق کے ہمراہ کیا گیا ہے، قاری کا تخیل کئی بار معاشرتی سطح کی بہتری پر غور کرنے نکل جاتا ہے، جدید اور عہد حاضر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ادب کے ذریعے سماجی رویوں تک تبدیلی کی ترسیل کی جائے۔

 

پکارو تو یہ دریا چلو بھر ہے
سمندر بھی ابھی تسخیر ہوجائے
*

لوٹ کر آتے نہیں ہیں کبھی دریا واپس
کون بتلائے سمندر میں نمک کیسے ہے
تو نہ تاجر نہ مہاجن تو بتا مجھ کو رئیس
تیرے اطراف میں سکوں کی کھنک کیسے ہے
*

اک عرصہ چھپایا ہے بدن پتوں سے ہم نے
اب جا کے کہیں صاحبِ پوشاک ہوئے ہیں
*

یہ ارتقا ہے کہ دورِ زوال ہے کیا ہے
ہر ایک چہرے پہ گردِ ملال ہے کیا ہے

 

یہ فکر و شعور کا میل ہی انسان کو ادراک کی جانب دھکیلتا ہے، ایک اچھا شاعر انسانی کیفیات تک دسترس حاصل کر لے تو اس کا کلام ادبی حوالے سے آئندہ نسلوں کے لیئے بھی مثالی و تدریسی روپ اختیار کر جاتا ہے، شاعر ذہنی گتھیوں کو کھولتا ہے اور لکھتا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب ہو جائے تو پڑھنے والے اسے خود بخودقابلِ قدر اور امر کر دیتے ہیں، وقتی طور پر داد و تحسین کےڈونگرے سمیٹنا قطعی مشکل نہیں ہے لیکن جو کام نسلوں تک قائم رہے وہ دیانت اور محنت کا طلبگار ہوتا ہے۔

 

اگر یہ مہر و وفا جھوٹ ہے تو بول رئیس
ردائے عشق شکاری کا جال ہے کیا ہے
*

تمام عمر ہی شیشہ گری میں گزری ہے
میں سنگ زاد نہیں تھا جو چُور ہو جاتا
*

ہر ایک صنعت و معنی کی قسم جانتے ہیں
وہ ہم ہی ہیں جو غزل کا طلسم جانتے ہیں

 

اچھے شعر کہنے والوں کو یہ علم ہوتاہے کہ شاعری ادب کی ایک اعلی صنف ہے لہذاعہد حاضر کے شاعر کی آفاقیت اس کی فکر و عمل کے ذخیرے میں پوشیدہ ہے،اگر بلند خیالی کا خزانہ بڑھے گاتو کام میں پختگی اور لازوال اجالے کی کرنیں ضرور روشن ہوں گی۔

 

رہے گا بن کے یہ پیوندِ ارض ہی اک دن
نہ ساتھ روح کا دے گا یہ جسم جانتے ہیں
*

لفظ بے معنی کہاں اے ساعتِ حیران کن
سر پہ ساتوں آسماں اے ساعتِ حیران کن
اہمیت کیا تھی ورق کی میرے لفظوں کے بغیر
گونگے بہرے بے زبان اے ساعتِ حیران کن
ہاتھ میں تسبیح اور کتبِ مقدس ہیں رئیس
شہر سارا بے اماں اے ساعتِ حیران کن
*

خود اپنے آپ میں اپنی تلاش ہے مجھ کو
یہی جنون تو کوزہ گری سکھاتا ہے
*

 

عبادت فقط گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سجدوں یا ہاتھ اٹھانے سے دعا کی قبولیت میں نہیں تبدیل ہو جاتی، یہ تو جب پوری ہوتی ہے جب آپ میں کوئی احساس ہو، بدن میں اس کی تھرتھراہٹ دوڑے، شاعری بھی عبادت و دعا کے بین ایک کیفیت ہے، محبت سے بھرپور ایک آواز ہے۔بہترین دوست ہے، رب ہے، بندگی ہے۔

 

کیئے تو سجدے اس آستاں پر رئیس تو نے
مگر یہ کیا ہے جبیں سے تیری ہے داغ غائب

 

تو شاعری سچائی سے رشتہ ہے، انسان اپنے آپ کو ہی کھوج لے، اس کے اپنے اندر پوری کائنات ہے، حقیقت ہے تو کبھی خواب، انسان کے اپنے اندرمنظر ہیں، سر سبز رتیں ہیں، دشت و صحرا ہیں، پیاس بھی ہے اور سیرابی بھی، سکوت ہے تو کبھی شور،پارہ ہے تو کبھی جامد، تعلق ہے تو کبھی لا تعلق !!!

 

باندھ رکھا ہے مصروفیت نے رئیس
کس سے ہو رابطہ شہر بے خواب ہے
*

اسے مطالعہ کرنے کو ہے صدی درکار
پڑھے گا کون یہاں میرا گوشوارہ اخی
*

مری ہی کرب رتوں نے کیا شکار مجھے
بہا کے لے گیا اشکوں کا آبشار مجھے
*

 

شاعر کی شاعری جمالیاتی سطح سے جنم لیتی ہے ، فنا اور بقاء کے سوالات سے جنم لیتی ہے، روز مرہ کی اشیاء سے جنم لیتی ہے، یہیں سے عام انسان کے کیفیاتی معاملات پر شاعر کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوتاہے، ادب پروان چڑھتا ہے، جستجو کی پرواز شروع ہوتی ہے، اس کے اندر کوئی اسے اکساتا ہے کہ قلم کا استعمال کرو، اس اضطراب سے باہر نکلو!۔

 

’’ مشورہ‘‘
بہت دنوں سے خموش ہو تم
غزل کہی ہے نہ نظم ہی کوئی لکھی ہے تم نے
خود اپنے اندر ہی گھٹ رہے ہو
یہ آبشار اور بہتے دریا
لہکتے جھرنے ہمکتے بادل
بہت سے چہروں کے کچھ تاثر
بہت لہجوں کی گھن گرج اور
گل ریز کچھ لبوں کی صدائیں تم سے
شکوہ کناں ہیں
یہ کہہ رہی ہیں
چلو ذرا زندگی کے سچے مناظر
ہمیں دکھاؤ
قلم اٹھاؤ، قلم اٹھاؤ۔۔۔!!!۔

 

رئیس الدین رئیس کا کلام بلا تخصیص پختگی و علمیت کا مظہر ہے، ان کی شاعری تخلیق کے سنہرے مناظر سجی ہے، الفاظ کے رنگ پڑھنے والوں کی بینائی کو خوشگواریت عطا کرتے ہیں، اس میں خواب گردش کرتے نظر آتے ہیں، امیدوں کے سائبان ملتے ہیں، کہیں کہیں مایوسی کے رستے بھی موڑ کاٹتے ہیں، من بنجارہ بنتا ہے تو ماضی کی زنجیر پیروں میں الجھ جاتی ہے، چھت پر خواہش کا تالاب بھرجائے تو گھر پھوٹ کر آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے، محبت کے چراغ روشن ہوکر کسی نام کا دم بھرنے لگتے ہیں، احساس کے پردوں سے زلیخائیں جھانکتی ہیں، اس عہد کے یوسف اگر بکنے لگیں تو خون کا سیلاب آ جاتا ہے، دور فضاؤں میں کوئی لکیر روشن ہوتی ہے تو کوئی تارہ آکاش سے ٹوٹ بھی جاتا ہے، سادھو سنت فقیروں کے چنگل میں پھنسی قوم کی بیماری پر فکر انگیزی بھی عود کر آتی ہے،اس مجموعے میں شامل کئی نظمیں دعوتِ مطالعہ دیتی ہیں جن میں ’’ کاش، نسخہ، شیشۂ غماز، بنیادی سوال، سعئ رائیگاں‘‘ شامل ہیں،مجھے قوی امید ہے کہ اردو ادب میں شعری حوالوں سے رئیس الدین رئیس کا نام زندہ وتابندہ رہے گا۔

 

’’بدن کہانی‘‘
بدن کہانی کو لکھنے والو
بدن کہانی کو کیا لکھوگے
زمیں پہ جب تک ہے اگتا گندم
بدن کہانی بھی ہے ادھوری
کئی مورخ بھی جا چھپے ہیں
اسی زمیں میں
جہاں سے گندم اگا رہے ہو
یہی بدن ہے، یہی مورخ
یہی کہانی ہے بس بدن کی ۔۔۔!!!۔

 

از: فرزانہ خان نیناؔ ں
نوٹنگھم، انگلینڈ

Butterfly Bar 12Name Naina Iceblue heart

Comments»

No comments yet — be the first.

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.