jump to navigation

Saqib Anjaan شہرِ سخن کی شہزادی

از: ثاقبؔ انجان۔ کراچی

purple roses welcome 4

 

شاعری جہاں اپنے عہد کے اعمال کی خفیہ دستاویز ہوتی ہے وہاں تخلیق کار کے جذبات و محسوسات کی واضح عکاس بھی ہوتی ہے، قدرتِ اظہار کی نمو حالات و واقعات سے لے کر غیر مرئی احساسات اور لطیف ترین جذبوں کی شاداب آب و ہوا میں بے منظری بے حسی اور غیر جذباتی ماحول یکسانیتِ اظہار کی تمام تر صلاحیتوں کے لیئے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، سناٹے میں سانس کی آواز بھی غنیمت ہے اور خاموشی کا طلسم توڑنے کے لیئے ایک ہچکی بھی کافی ہوا کرتی ہے اس لیئے اپنے اپنے عہد میں جو فنکار بھی طلسمِ ذات یا عہد کے ہولناک سناٹے کو توڑنے کے لیئے جتنی بھی آواز بلند کر سکتا ہے غنیمت ہے، کہ بہت سے لوگ تو طلسمِ ذات کی بھول بھلیوں میں اپنا آپ گنوا بیٹھتے ہیں، اپنی ذات کی گہرائیوں میں چھپے ہوئے اسرار کا سراغ لگانا، اپنے ماحول کی عریاں سچائیوں سے آنکھ ملانا اور  بے باک لب و لہجے میں محسوسات کا اظہار کرنا ایک دلیر فنکار کا منصب ہے، اور اپنے منصب سے انصاف کرنے والے فنکار بہت کم بلکہ بہت ہی کم ہوتے ہیں، ورنہ ایک آدھ چوٹ کھا کر غوغا بلند کر نے والوں اور ایک آدھ زخم کی نمود و نمائش کے لیئے کوچہ و بازار سر پہ اٹھانے والوں کا ایک انبوہ ہر موڑ پر دکھائی دیتا ہے، اور یہی انبوہ خود کو عہد کا نمائندہ بھی ظاہر کرتا ہے۔

ایسے میں چپ چاپ پرورشِ لوح و قلم کرنے والے اور شور و غوغا سے بے نیاز ہوکر تخلیق کے کرب کو سانسوں میں گھول کر زندہ رہنے والے فنکار کتنے معتبر اور لائق تکریم ہیں،یہ بات سوچتے ہوئے لمحہ بھر کو آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں جہاں ہم معاشرتی اقدار کی شکست و ریخت کے عینی شاہد ہیں وہاں یہ بھی ہوا کہ ہمارا ادب کئی سمتوں اور کئی جہتوں میں تقسیم ہوا، افسانے میں ”علامت“ بالغ ہوئی، نظم نے نثر کا پیرہن اوڑھا، تنقید نے اپنے تیشے کی ضربوں سے سنگ زاروں کو چھلنی کیا، غزل نے ریشم اور کھدر کی تمیز ختم کردی، مزاحمت نے نیا روپ دھارا، اور یوں ادب کے خد و خال کی ڈرامائی تشکیل کی گئی، مگر اس اثنا میں کچھ سنجیدہ تخلیق کار جدت و روایت دونوں کو اعتدال کے ساتھ برتنے میں مصروف رہے، اور اپنے تجربوں کو اپنے فن کے آئینہ خانوں میں اس انداز سے سجایا کہ فن پاروں کی پہچان ابہام و ایہام سے بالا تر رہی۔

ایسے شعرا کا گروہ نہ تو تشکیک کا شکار ہوا اور نہ ہی بے معنی خود کلامی کی زد میں آیا، بلکہ خود اعتمادی کے ساتھ جذبہ و احساس کی رعنائی میں خونِ جگر کی آمیزش کرتا رہا اور ابھی تک مکمل توانائی کے ساتھ مصروف ِ سفر ہے۔

فرزانہ نیناں ؔ بھی اسی خود اعتماد اور توانا گروہ کی فرد ہے جو جذبے کی صداقت کی علمبردار اور احساس کی تونائی کی نمائندہ ہے، وہ نہ تو تذبذب کی شکار ہے نہ ہی تشکیک و اوہام کی مریض، بلکہ جو کچھ سوچتی ہے جس کسی کے لیئے سوچتی ہے، نہایت دیانتداری کے ساتھ قلم و قرطاس کے ذریعے اپنے عہد کے قاری کے سپرد کر دیتی ہے۔اسے دورانِ سفر اِ دھر اُدھر دیکھنے کی عادت ہے نہ شوق، وہ اپنے قدموں کی چاپ میں مگن ہے، اس کے لیئے یہی بات اطمینان بخش ہے کہ وہ جس عہد میں اور جس کے لیئے بھی شعر کہتی ہے اِس عہد اور اُس عہد کے ”اُس“ تک اس کی بات پہنچ رہی ہے۔

نیناں کی شاعری میں نہ تو اتنی گہرائی ہے کہ ابلاغ کے لیئے پاتال تک اترنا پڑے اور نہ ہی اتنی ”سطحیت“کہ جھاگ اور کائی ہٹاتے ہی انگلیاں ”ریت ریت“ ہو جائیں، بلکہ یوں ہے کہ صاف اور شفاف پانی جس میں آسمان کے عکس نے نیلگوں چاہتیں گھول دی ہیں، جس کی تہہ میں محبت کی سیپیاں، خلوص کے موتی اور وفا کے مونگے آہستہ آہستہ بہتے دکھائی دیتے ہیں۔

نیناں کی شاعری خالص انسانی جذبوں کی خوشبو سے رچی بسی شاعری ہے، وہ نہ تو فلسفہ و منطق کے بے آب و گیاہ صحراؤں کی مسافر ہے اور نہ ہی پیچیدہ مسائل سے الجھ کر اپنی شاعری کو بھاری بھرکم زمینوں میں بانٹنے کا کشٹ کرتی ہے، بلکہ وہ تو محبت کی شاعرہ ہے، امن کی فاختہ کے اجلے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سے اپنی فکر کا ریشم بنتی ہے، اور اسی ریشم سے زندگی کے دامن پر پھول جیسے شعرچن دیتی ہے اور بس۔

نیناں کی شاعری پڑھتے ہوئے ایک لمحے کو بھی ذہن بوجھل نہیں ہوتا، نہ ہی آنکھیں تھکن محسوس کرتی ہیں، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم فرشِ گل پر آہستہ آہستہ خوشبو کے جزیروں کی طرف محوِ خرام ہیں، راستے میں نہ پیچ و خم نہ موڑ نہ دوراہا۔

سیدھی، سادی، سچی اور کھری باتیں بغیر کسی مبالغہ اور لگاوٹ کے کہنا خاتون کے فن کا دستور ہے، وہ زندگی سے بھرپور شاعری کرتی ہے اور جو کچھ کہتی ہے اسے پھر سے دیکھنے تک کے تکلف کی روادار نہیں ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ بیساختہ کہا ہوا سچ دہرانے سے شاید میلا ہوجاتا ہے، کیونکہ بے ساختگی ہی زندگی کا جوہر ہے۔

میں نے فرزانہ نیناں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے سچ کہا ہے، اس کے گواہ خود اس کے اشعار ہیں، مجھے یقین ہے یہ گواہ(اشعار) ادبی عدالت میں جو کچھ کہیں گے سچ کہیں گے اور سچ کے سوا کچھ نہیں انشا اللہ۔

٭

٭فقط دعاگو۔ ثاقبؔ انجان۔ کراچی۔٭

Purple Rose Bar