jump to navigation

Iqbal Bano-اقبال بانو،غزل گائیکہ

Iqbal Bano – The Legendry Ghazal Singer passed away on April 21, 2009

 

غزل کی گائیکی میں اپنے منفرد انداز کے لیے شہرت یافتہ گلوکارہ اقبال بانو منگل کو لاہور میں انتقال کر گئیں
بھارت کے مُقابل پاکستان میں موسیقی کا شعبہ اگرچہ رُوبہ زوال رہا ہے اور کلاسیکی فنکار اپنی قدر ناشناسی کا شکوہ با آوازِ بلند کرتے رہے ہیں لیکن پاکستان میں غزل کی گائیکی کو جو بلند مقام حاصل ہوا

اس کا اعتراف بھارت کے سنگیت پریمی اور ماہرینِ موسیقی بیک زبان کرتے ہیں۔

پاکستان میں غزل گائیکی کی ابتداء اگرچہ استاد برکت علی اور اعجاز حضروی نے کی تھی لیکن بعد میں جن شخصیات نے اسے بامِ عروج پر پہنچایا اُن میں مہدی حسن، فریدہ خانم اور اقبال بانو کے نام شامل

ہیں۔

تقسیمِ ہند سے پہلے بھی اگرچہ غزل گانے کی روایت موجود تھی لیکن یہ سلسلہ کوٹھوں سے شروع ہوا تھا جہاں سُر اور لے کی پابندی اور تان پلٹے کی کاریگری تو موجود تھی مگر غزل کے لسانی پہلو

اور اسکی صوتیات پر قطعاً توجہ نہ دی جاتی تھی، جس کے نتیجے میں شعر کا مضمون دب کے رہ جاتا بلکہ بعض اوقات تو لے اور سُر کا جوش لفظوں کا حُلیہ اس بُری طرح بِگاڑ دیتا کہ شاعر خود اپنی غزل

کا حال دیکھ کر سر پیٹ لیتا۔

گلوکار میں یہ احساس بہت بعد میں پیدا ہوا کہ غزل کی زبان، لفظوں کی نفیس ادائیگی کا تقاضہ کرتی ہے۔ پاکستان میں غزل کو گائیکوں کی درازدستی سے بچانے کا بِیڑا معروف شاعر اور براڈ کاسٹر سلیم

گیلانی نے اٹھایا اور مہدی حسن کو اپنی نگرانی میں غزل گائیکی کے لئے تیار کیا۔

جناب گیلانی نے ریڈیو پر گُلوکاری کرنے والوں کےلئے تلفظ اور ادائیگی کے کڑے اُصول مقرر کئے جس کے نتیجے میں حزم و اختیار کا وہ رویہ پیدا ہوا جو بعد میں مہدی حسن، فریدہ خانم اور اقبال بانو کی

غزل گائیکی کا طُرہ امتیاز بنا۔

اقبال بانو نے روہتک میں زھرہ بائی نام کی ایک گلوکارہ کے گھر میں جنم لیا۔ سُر سنگیت اُن کی گھُٹی میں پڑا تھا اور روہتک کا مخصوص انداز اُن کی تربیت میں در آیا تھا۔ البتہ سنِ بلوغت کو پہنچنے پر جب

انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی مرکز سے گانا شروع کیا تو اُردو کے معیاری تلفظ اور ادائیگی کے دہلوی انداز سے اُن کی شناسائی ہوئی۔اقبال بانو نے روہتک میں زھرہ بائی نام کی ایک گلوکارہ کے گھر

میں جنم لیا۔ سُر سنگیت اُن کی گھُٹی میں پڑا تھا اور روہتک کا مخصوص انداز اُن کی تربیت میں در آیا تھا۔ البتہ سنِ بلوغت کو پہنچنے پر جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی مرکز سے گانا شروع کیا تو

اُردو کے معیاری تلفظ اور ادائیگی کے دہلوی انداز سے اُن کی شناسائی ہوئی۔

انیس سو باون میں ایک پاکستانی زمیندار سے شادی کرنے کے بعد جب وہ ملتان آکر آباد ہوئیں تو کافی کی صِنف سے بھی اُن کا تعارف ہوا اور آج اُن کی گائی ہوئی ملتانی کافیاں سارے پاک و ہند میں معروف

حیثیت رکھتی ہیں۔

جب وہ پاکستان منتقل ہوئیں تو یہاں کی فلم انڈسٹری ابھی گھٹنیوں چل رہی تھی۔ بمبئی اور کلکتے سے نقلِ وطن کرکے آنے والے فلم ساز اور ہدایتکار اِکّا دُکّا فلمیں بنا رہے تھے لیکن فلمی صنعت کے اوّلین

دیسی ہدایتکار انور کمال پاشا تھے۔ وہ خالص لاہوری شخصیت تھے اور بمبئی یا کلکتے کی ہوا انھیں نہیں لگی تھی۔ انھوں نے قاتل اور گمنام جیسی فلمیں بنا کر نہ صرف صبیحہ اور اسلم پرویز جیسے

آرٹسٹوں کو پاکستانی سکرین سے روشناس کرایا بلکہ اقبال بانو کو بھی ایک پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کرایا۔

بہت سے معروف فلمی گیت گانے کے بعد بھی اقبال بانو کا دِل کلاسیکی روایت میں اٹکا رہا۔ ہدایتکار خلیل قیصر کی فلم ناگن میں اگرچہ موسیقار صفدر نے اُن کےلئے خاص طور پر نیم کلاسیکی دھنیں تیار کیں

اور اُن کا گایا ہوا یہ گیت تو زبان زدِ خاص و عام ہوگیا۔ ’اب کے ساون تو سجن گھر آجا‘۔

قبال بانو نے جلد ہی پلے بیک گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے فن کو محض نیم کلاسیکی محفلوں تک محدود کر لیا
لیکن اقبال بانو نے جلد ہی پلے بیک گلوکاری سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے فن کو محض نیم کلاسیکی محفلوں تک محدود کر لیا۔

سنہ ستر کی دہائی میں انھوں نے ٹیلی ویژن پر غزل گائیکی کا مظاہرہ کر کے ہر طرح کے سامعین اور ناطرین سے داد وصول کی۔ معروف شاعر قتیل شفائی نے اُن کی شان میں کتابی طوالت کی ایک مسلسل

نظم لکھ ڈالی جو مُطربہ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ خود اقبال بانو نے میر، غالب، فیض اور فراز کی کئی غزلیں گائیں۔

غزل اپنی ساخت میں ایک انتہائی مُرتّب و مدّون قسم کی صنف ہے اور اس لحاظ سے گلوکار کو کئی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہے کہ وہ استھائی اور انترے کے لگے بندھے اصولوں پر پوری غزل کامیابی سے

نِمٹا دیتا ہے۔ لیکن نظم میں مصرعوں کی لمبائی غزل کی طرح متعین نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں ردیف قافیے کا طے شدہ آہنگ موجود ہوتا ہے، چنانچہ نظم کی گلوکاری ایک انتہائی مشکل فن بن جاتا ہے اور

اقبال بانو نے اس مشکل کو نہ صرف ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا بلکہ اس آزمائش پر پورا اُتر کر بھی دکھایا۔

بشکریہ بی بی سی

پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔ گمنام

امبوا کی ڈاریوں سے جھلنا جھلا جا

الفت کی نئی منزل کو چلا ۔ قاتل

ستارو تم تو سو جاؤ ۔ عشق لیل

دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں ۔ فیض احمد فیض

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

انجمن انجمن شناسائی, پھر بھی دل کا نصیب تنہائی

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

دیکھنا بھی انہیں دور سے دیکھا کرنا

ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی

جسے عشق کا تیر کاری لگے

سب پہ جو تاب شوق کے طوفان

مورے سیاں اتریں گے پار ندیا دھیرے بہو نا

Comments»

No comments yet — be the first.

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.