October 23, 2018
Posted by Farzana Naina in Blogroll, Culture, Feelings, Karachi, My Articles, Pakistan, Sindh, Sindhi, Urdu.add a comment
میں اس خوش قسمت دور کی ہوں جب نانیاں دادیاں روایتی طریقوں سے کھانے تیار کر کے اپنے خاندان کو کھلاتی تھیں، آج سویرے سویرے ’’ سیٹر ڈے کچن ‘‘ میں مچھلی کی ترکیبوں نے مجھے میری پیاری اماں (دادی جان) کے ہاتھ کے ذائقوں میں ڈبوئے رکھا، یورپی مچھلیوں کے نام سنتے ہوئے مجھے کراچی کے وہ دن بہت یاد آئے جب اماں تازہ مچھلی بڑی دیکھ بھال سے خریدتی تھیں، پاپلیٹ، رہو ، سرمئی ، لیڈی فش ، پلا ، کھگا، کنڈا وغیرہ بھاؤ تاؤ، تول مول کے بعد مجھے بھی ان مچھلوں کو دھونے دھلانے کا کام کبھی کبھارسونپا جاتا تو میری آنا کانی دیکھنے لائق ہوتی!
مجھے ان کی آنکھیں، گلپھڑے اور کانٹے نکالتے ہوئے بہت گھن آتی تھی اور بعد میں دس دس دفعہ ہاتھ دھو کر پونڈز کی کریم ہاتھوں پر ملا کرتی، اماں کے ہاتھ کا ذائقہ بڑی بھابھی کے سوا کسی اور کے ہاتھ سے نہیں چکھا ، البتہ آنٹی ( دوسری امی ) کے ہاتھ کی خالص سندھی مصالحے میں لیپ کر تلی ہوئی مچھلی بھی لا جواب ہوا کرتی تھی۔
جب میں انگلینڈ آئی تو دیکھا کہ پنجاب میں پرورش پانے کے باعث اختر، میرے سسرال والے اور بیشتر پنجابی دوست جھینگوں اور مچھلی وغیرہ کے اتنے شائق نہیں تھے جتنے ہم کراچی والے، یوں بھی لاہورمیں شاید دریائی مچھلی پائی جاتی ہے، جبکہ کراچی میں سمندری مچھلیوں کی بڑی ورائٹی دستیاب ہوا کرتی تھی۔
پرسوں میں نے جو مچھلی بنائی تھی اس پر پارسلے، کالی مرچیں، نمک، تھوڑا لہسن ، لیموں کا رس اور زیتون کا تیل ملا کر پیس کر وہ پیسٹ اور کدو کش کیا ہوا پنیر اوپر سے ڈالا تھا، نتیجے میں گھر والوں نے انگلیاں تک چاٹ لیں ۔
بہر الحال پاکستان کی مچھلی کا ذائقہ کسی میں نہیں !
درج ذیل لنک گو پچھلے برس کا ہے لیکن آپ کو اگر پاکستانی سیاست کے چینلز دیکھنے سے فراغت ملے تو اس کا مطالعہ سیر حاصل رہے گا۔
J
https://www.dawnnews.tv/news/1068999
Mushaira in Frankfurt October 12, 2018
Posted by Farzana Naina in Poetry.add a comment