jump to navigation

Abdul Hameed Adam – عبدالحمید عدم

عبد الحمیدعدم 10 اپریل، 1910ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک پاس کیا۔ پھر پرائیوٹ طور پر ایف اے کیا اور ملٹری اکاونٹس میں ملازم ہو گئے۔ 1939ء میں 10 سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے۔ وہاں جا کر عراقی لڑکی سے شادی کر لی۔ 1941ء میں ہندوستان آگئے۔ اور ایس اے ایس کا امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ پھر ملٹری اکاونٹس میں ملازمت پر بحال ہوگئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا آپ 1948ء میں ملٹری اکاونٹس میں ڈپٹی اسسٹنٹ کنٹرولر مقرر ہوئے۔ اور اپریل، 1966ء میں اس عہدے سے ریٹائر  .ہوئے

 عدم نے اپنی شاعری کا آغاز ان دونوں کیا تھا جب اردو شاعری کے آسمان پر اختر شیرانی ، جوش ملیح آبادی اور حفیظ جالندھری جیسے روشن ستارے جگمگا رہے تھے۔ عدم نے بھی ان کی راہ پر چلتے ہوئے صرف رومانی شاعری کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ اردو زبان کے اس رومانی شاعر نے10 مارچ1981ء میں وفات پائی ۔ اور  قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ کے صدر دروازے کے پاس دفن ہوئے۔ 

عدم بہت پرگو اور زود گو شاعر تھے۔ ان کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے خرابات، نگار خانہ،چارہ درد اور رم آہو وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب ان کے پاس شراب خریدنے کے پیسے ختم ہو جایا کرتے تھے تو وہ جلدی جلدی غزلیں لکھ کر اپنے پبلشر کو دے کر اس سے ایڈوانس معاوضہ لے آتے تھے۔ ان کی اکثر شاعری اسی طرح سے لکھی گئی ہے۔ تاہم جو غزلیں عدم نے اپنے لیے لکھی ہیں ان میں ان کا مخصوص انداز جھلکتا ہے، جس میں ہلکا ہلکا سوز بھی اور عشق و محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے۔ انہوں نے روایتی موضوعات، خم و گیسو، گل و بلبل، شمع و پروانہ، شیشہ وسنگ کا استعمال کیا ہے۔ کوئی نیا پن نہ ہونے کے باوجود یہ سامع کو نیا ذائقہ ضرور دے جاتی ہیں اور ایک طرح سے انہوں نے روایتی غزل کو مزید آبدار کیا ہے۔

اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے

دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے

جھاڑ کر گرد غم ہستی کو اڑ جاؤں گا میں

بے خبر ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے

یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج

ایک پہچانی ہوئی آواز آتی ہے مجھے

کس نے کھولا ہے ہوا میں گیسوؤں کو ناز سے

نرم رو برسات کی آواز آتی ہے مجھے

اس کی نازک انگلیوں کو دیکھ کر اکثر عدمؔ

ایک ہلکی سی صدائے ساز آتی ہے مجھے

***

بھولے سے کبھی لے جو کوئی نام ہمارا

مر جائے خوشی سے دل ناکام ہمارا

لے جاتی ہے اس سمت ہمیں گردش دوراں

اے دوست خرابات سے کیا کام ہمارا

کر لیتے ہیں تخلیق کوئی وجہ اذیت

بھاتا نہیں خود ہم کو بھی آرام ہمارا

اے گردش دوراں یہ کوئی سوچ کی رت ہے

کمبخت ابھی دور میں ہے جام ہمارا

اس بار تو آیا تھا ادھر قاصد جاں خود

سرکار کو پہنچا نہیں پیغام ہمارا

پہنچائی ہے تکلیف بہت پہلے ہی تجھ کو

اے راہنما ہاتھ نہ اب تھام ہمارا

اے قافلۂ ہوش گنوا وقت نہ اپنا

پڑتا نہیں کچھ ٹھیک ابھی گام ہمارا

دیکھا ہے حرم تیرا مگر ہائے رے زاہد

مہکا ہوا وہ کوچۂ اصنام ہمارا

غلمان بھی جنت کے بڑی چیز ہیں لیکن

توبہ مری وہ ساقیٔ گلفام ہمارا

گل نوحہ کناں و صنم دست بہ سینہ

اللہ غنی! لمحۂ انجام ہمارا

کر بیٹھے ہیں ہم بھول کے توبہ جو سحر کو

شیشے کو تعاقب ہے سر شام ہمارا

مے پینا عدمؔ اور قدم چومنا ان کے

ہے شغل یہی اب سحر و شام ہمارا

***

جب ترے نین مسکراتے ہیں

زیست کے رنج بھول جاتے ہیں

کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر

بھول کر آ گئے ہیں جاتے ہیں

کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں

ناخدا کس لیے ڈراتے ہیں

اک حسیں آنکھ کے اشارے پر

قافلے راہ بھول جاتے ہیں

[https://www.youtube.com/watch?v=Xx7_1NBvxxo]

[https://www.youtube.com/watch?v=f8sT85V2dOA]

Comments»

No comments yet — be the first.

Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.