jump to navigation

Sufi Singers of Sindh-Sohrab Faqeer October 29, 2009

Posted by Farzana Naina in Cultures, Film and Music, Music, Pakistan, Sindhi.
Tags: , , ,
2 comments

سندھ کے معروف صوفی گلوکار سہراب فقیر کا پچھتر برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں جمعہ کے روز انتقال ہو گیا۔ فالج کی وجہ سے ان کی وہ آواز ختم ہو چکی تھی جسے سننے کے لیے لوگ دور دراز علاقوں سے درازہ (درازہ اس گاؤں کا نام ہے جہاں سائیں سچل مدفو ن ہیں) آتے تھے۔

سہراب فقیر

سہراب فقیر کے انتقال کے ساتھ ہی صوفیوں کا کلام گانے والا ایک اور نامور فنکار کم ہو گیا۔ ان کی کمی پوری کرنے کے لیے مستقبل قریب میں کوئی نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح جیسے علن فقیر کا مقام حاصل کرنے کے لیے ابھی تک کوئی سامنے نہیں آسکا ہے۔

سہراب کو، جن کا پورا نام فقیر سہراب خاصخیلی تھا، سائیں سچل سرمست کا کلام خصوصاً سنگ گانے کا ملکہ حاصل تھا۔

سہراب کو، جن کا پورا نام فقیر سہراب خاصخیلی تھا، سائیں سچل سرمست کا کلام خصوصاً سنگ گانے کا ملکہ حاصل تھا

انہوں نے آٹھ برس کی عمر سے صوفیوں کا کلام گانا شروع کیا تھا اور سار ی زندگی یہی کام کیا جو ان کا ذریعہ معاش تو تھا ہی لیکن محبوب مشغلہ بھی تھا۔

یہ فن انہیں ورثہ میں ملا تھا۔ ان کے والد ہمل فقیر خود اپنے وقت کے بڑے گائک تھے اورتھری میر واہ میں مدفون بزرگ شاعر خوش خیر محمد ہسبانی کے مرید تھے۔ کچھ بیٹے کو انہوں نے تربیت دی تو کچھ بیٹے کا شوق جس نے سہراب خاصخیلی کو سہراب فقیر بنا دیا۔

یہ سہراب کی اپنے فن پر گرفت اور مقبولیت ہی تھی جو حکومت کو مجبور کرتی تھی کہ انہیں طائفہ کے ساتھ بیرونی ممالک میں بھیجا جائے۔ برطانیہ ، بھارت، ناروے، سعودی عرب اور دیگر کئی ممالک میں جا کر انہوں نے سامعین سے داد وصول کی تھی۔

سائیں سچل ہفت زبان شاعر تھے اور سہراب سندھی، سرائکی، پنجابی اور اردو زبانوں میں گاتے تھے کہ جس زبان میں گایا ایسا لگا کہ یہ ان کی ہی زبان ہے۔

وہ سائیں سچل کے علاوہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت سلطان باہو، سا ئیں بھلے شاہ اور دیگر شعراء کا کلام بھی گایا کرتے تھے۔

بشکریہ بی بی سی …………آؤ رانھڑا رہو رات

Aao Ranhra Raho Raat

The Nobel Prize in Literature 2009 to Herta Müller October 29, 2009

Posted by Farzana Naina in Poetry.
Tags: , ,
add a comment

ہیرٹا مولر بارہویں خاتون ادیب ہیں جنہیں ادب کا نوبل اعزاز دیا گیا ہے

رومانوی نژاد جرمن ادیب ہیرٹا مولرکو سال دو ہزار نو کے لیے ادب کے نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔

گزشتہ سال فرانسیسی ادیت ژاں ماغی گُستاو لکلیزیو کو نوبل پرائز دیا گیا تھا جبکہ دو ہزار سات میں ادب کا نوبل پرائز برطانوی ادیب ڈورِس لیسنگ نے حاصل کیا تھا۔

سن انیس سو تریپن کو رومانیہ میں پیدا ہونے والے ہیرٹا مولر نکولائی چاشسکو کے دور میں مشکل حالات کی تصویر کسی کے مشہور ہیں۔

ہیرٹا مولر کا کہنا ہے کہ ادب کا نوبل انعام ملنے کی خبر سن کر وہ ’دنگ رہ گئیں اور انہیں اس کا یقین نہیں آیا۔‘

سویڈش اکیڈمی نے ہیرٹا مولر کی شاعری اور نثر دونوں کی تعریف کی ہے۔

’ان میں بے دخل کیے گئے لوگوں کی حالت زار بیان کرنے بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ ان کی تحریروں میں شاعری کی یکسوئی اور نثر کی بے تکلفی پائی جاتی ہے۔‘

مولر نے رومانیہ کی جرمن اقلیتی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان میں جنم لیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کی والدہ کو سویت یونین میں ایک لیبر کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔

انہیں ستر کی دہائی میں چاشسکو سرکار کی خفیہ پولیس سے تعاون نہ کرنے کی پاداش میں نوکری سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے وہ جرمنی چلی گئیں۔

سن انیس سو بہتر میں جرمن زبان میں چھپنے والے ان کے افسانوی مجموعے کو رومانیہ میں سنسر کیا گیا تھا۔

ان کی ابتدائی تحریروں کو ملک سے باہر سمگل کر دیا گیا تھا جبکہ بعد کے سالوں میں انہیں کئی ادبی اعزازوں سے نوازہ گیا۔

ادب کے نوبل ایوارڈ کے ساتھ انہیں آٹھ لاکھ بانوے ہزار پاؤنڈ کی خطیر رقم بھی دی جائے جو وہ دس دسمبر کو سٹاک ہوم میں ہونے والی ایک تقریب میں وصول کریں گے۔

http://nobelprize.org/nobel_prizes/literature/

http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2009/10/09http://nobelprize.org/nobel_prizes/literature/1008_mueller_noble.shtml