jump to navigation

Amrita Pritam-Sara Shagufta

 سارہ شگفتہ کی حقیقت 

تاریخ پیدائش : 31 اکتوبر 1954
تاریخ وفات : 4 جون 1984

یہ واقعہ اردو دنیا کی ایک شاعرہ سارہ شگفتہ کی بابت تھا جس میں ان کی پہلی شادی کے بعد ان کے شوہر جو خود بھی شاعر تھے، کی شاعرہ کے ساتھ کی جانے والی مفروضہ زیادتیوں کی تفصیل نہایت دردمندانہ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ میں نے اپنے دوست کو جواب دیا کہ بھائی میں اس سارے واقعے بلکہ واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ خاتون جو اسی پہلی شادی کے بعد ان ہی شاعر صاحب کی صحبت میں رہ کر شاعرہ بنیں، چونکہ ان کا چال چلن مشکوک تھا، شادی کے چند سال بعد جب یہ معاملہ کھلا تو شاعر صاحب جو نہایت شریف، پاک دامن اور اپنے علم کے حوالے سے ادبی حلقوں میں دانش ور بھی تسلیم کیے جاچکے تھے، انہوں نے خاموشی سے انہیں طلاق دے دی۔ جس کے بعد ان شاعرہ نے اپنے شوہر کے قریبی دوست سے جن سے ان کے معاملات تھے، بیاہ رچالیا۔ وہ شادی بھی نہ چل سکی۔ وہاں سے بھی انہیں طلاق ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ادبی حلقوں میں اپنی ساکھ اور اعتبار کی بحالی کے لیے اپنی مظلومیت کی گھڑی ہوئی داستان اِدھر اُدھر بیان کرنا شروع کردی ۔ چونکہ ہمارا قومی مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی بھی جھوٹے سچے واقعے کو سن کر ہم اس کی تصدیق یا تردید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جو سنتے ہیں آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کرلیتے ہیں، اور صرف یقین ہی نہیں کرتے، دوسروں کو سناکر اس کا نہایت خشوع و خضوع سے یقین بھی اس طرح دلادیتے ہیں جیسے یہ سنی سنائی بات نہیں، آنکھوں دیکھا حال ہے۔ اور یوں یہ سلسلہ قصے کہانی کا آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پھر اسے کوئی اپنے ناول کا، کوئی قسط وار کہانی کا موضوع بنالیتا ہے۔ کسی ڈرامہ نگار کو اس کی بھنک پڑتی ہے تو وہ اسے اپنی ڈرامہ سیریل میں ’’ڈرامہ‘‘ بناکر پیش کردیتا ہے۔ چونکہ واقعے میں عورت کی مظلومیت کا بیان ہوتا ہے تو اسے سچا ماننے میں کسی کو عار بھی نہیں ہوتا۔ تو سارہ شگفتہ مرحومہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
ایک قلم کار کے طور پر آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان حقائق کو قلم بند کریں۔ ایک جھوٹ جس کا سرا جاکر بہتان طرازی اور کردار کشی سے ملتا ہو، اس کو نظرانداز کرنا کسی طرح مناسب نہیں، دینی اعتبار سے اور نہ دنیاوی لحاظ سے! پورے معاشرے اور خصوصاً ہماری ادیب برادری کا حال ہی کچھ ایسا ہے کہ بولتے لکھتے ہوئے انہیں یہ خوف نہیں کہ اس کی کہیں جواب دہی بھی ہونی ہے، اس لیے وہ جو جی میں آتا ہے لکھتے رہتے ہیں۔ کوئی کہاں تک اس کی وضاحتیں کرتا پھرے! ۔

ایک ذمہ داری کے احساس اور شعور نے مجھے ہمت دلائی کہ ان واقعات کو بلاکم وکاست بیان کردوں تاکہ وہ سارے قصے کہانیاں جو افسانے، ناول، ڈرامے اور سوانح کا موضوع بنے ہیں، ان کی حقیقت دن کی روشنی میں سامنے آجائے۔ مجھے نہ کسی کی کردارکشی کرنی ہے اور نہ کسی کے شاعرانہ مرتبے یا ذاتی معاملات ہی سے کوئی غرض ہے، اس لیے ان سب سے بچتے ہوئے صرف اتنا ہی لکھوں گا جس کا میں چشم دید گواہ اور عینی شاہد ہوں۔

ایسا ہے کہ واقعات اپنی تفصیلات کے ساتھ ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ جن شاعر صاحب کو اس سارے قصے میں بدنام کیا گیا وہ میرے کالج کے زمانے کے ایسے دوست رہے ہیں کہ جن کے علم کی وجہ سے میں نے ان کا ہمیشہ احترام کیا، آج بھی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُن صاحبِ علم لوگوں میں کبھی شامل نہیں رہے جن کا علم ان کے کردار سے یا جن کا کردار ان کے علم سے لگّا نہیں کھاتا۔ وہ بنیادی طور پر اپنی تمام ذہانت، حاضر جوابی، گہرے مطالعے اور واضح شعور کے باوجود ہمیشہ نیک نفس، خوددار، دوست نواز اور اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے والے انسان رہے۔ ایسے لوگ جو اپنے اندر یہ خوبیاں رکھتے ہوں، اصلاً شریف اور بھولے یا معصوم ہوتے ہیں جو دوسروں کی چالاکیوں اور چلتربازیوں سے ناواقف اور اپنی نیک نیتی کے باوصف دوسروں کو بھی نیک نیت اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھتے ہیں۔ یہ تو بعد میں پتا چلتا ہے اور وقت ثابت کرتا ہے کہ جنہیں وہ اچھا اور اپنا بہی خواہ، خیال کرتے تھے وہ ویسے نہیں۔ تو اس سارے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جس سرکاری ادارے میں وہ ملازمت کرتے تھے، وہیں یہ خاتونِ مذکور بھی ملازمہ تھیں۔ دونوں میں مراسم اسی ملازمت کے حوالے سے قائم ہوئے اور پھر یہ معاملہ شادی پر منتج ہوا۔ شادی کے بعد ان شاعر صاحب نے اپنی دوست نوازی اور اپنی سادہ دلی کی وجہ سے اپنی اہلیہ کو اپنے دوستوں سے بھی ملوا دیا۔ جہاں جاتے، دوستوں کی محفل میں شرکت کرتے، اہلیہ بھی ساتھ ہوتیں۔ کچھ شوہر کی صحبت اور کچھ ادبی محفلوں میں شرکت کی وجہ سے ان خاتون میں بھی ادب کا شوق چرایا اور ایک دن انہوں نے اپنے شوہرِ نامدار کو یہ اطلاع دی کہ خیر سے انہوں نے بھی ایک نظم لکھی ہے۔ شوہر موصوف نے اپنی رفیقۂ حیات میں ادبی جراثیم پائے تو خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنے دوستوں کو بھی اس خوشی میں شریک کیا اور یوں پہلی نظم کے بعد دوسری، اور دوسری کے بعد تیسری۔ ۔ ۔ نظمیں جیسی کیسی بھی تھیں دوستوں میں کچھ پسند اور کچھ ناپسند کی جانے لگیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہر میں نثری نظم کی تحریک حضرت قمر جمیل کی ادبی قیادت میں دھواں دھار طریقے سے چل رہی تھی اور شہر کے سارے نوجوان شاعر اور شاعرات اس تحریک میں دل و جان سے شامل تھے۔ چنانچہ جب قمر جمیل صاحب اور دیگر شاعر و شاعرات کو خود شاعر صاحب نے اپنی اہلیہ کے شاعرہ بننے کی خوش خبری سنائی تو بات منہ سے نکلی اور کوٹھوں چڑھی کے مصداق شہر کے ادبی حلقے میں پھیلتی چلی گئی۔ شاعرہ صاحبہ نے جب اپنی شاعری کی یہ قدر و منزلت اور پذیرائی دیکھی تو انہوں نے ہاتھ پیر نکالے اور اپنے طور پر اپنے شاعر شوہر کے دوستوں سے مراسم و تعلقات قائم کرنے شروع کردیے۔ ان ہی شاعروں میں ایک شاعر دوست ان کے شوہر کے ایسے تھے جو صرف و محض شاعر تھے اور شاعر و ادیب کے لیے مذہب و اخلاق کی پابندی ضروری نہ سمجھتے تھے، جس کا ثبوت انہوں نے اپنی زندگی میں ایک بار نہیں دو بار دیا۔ مطلب یہ کہ ایک نہیں دو گھر اجاڑے، جب ان شاعرہ صاحبہ نے اپنے شوہر کے ان شاعر دوست کو اپنے دام میں کھینچا اور انہیں شیشے میں اتار کر ان سے اپنے قلبی معاملات وغیرہ استوار کیئے اور یہ اذیت ناک حقیقت ہمارے محترم دوست کے علم میں آئی تو انہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ سے جو خیر سے شاعرہ بھی بن چکی تھیں اور قمر جمیل صاحب جو خود بھی ایک معصوم اور بھولے انسان ہی تھے اور نئے لکھنے والوں کی مبالغہ آمیز تعریف کرکے ان کی حوصلہ افزائی میں خاصی شہرت رکھتے تھے، انہوں نے بھی ان نئی نویلی خاتون شاعرہ کی میرے انٹرویو میں (جو میری کتاب ’’یہ صورت گر‘‘ میں شامل ہے) اتنی بڑھا چڑھا کر تعریف کی کہ میں تو حیران و ششدر رہ گیا۔ چونکہ خاتون شاعرہ کی نثری نظمیں کم سے کم مجھے تو کبھی پسند نہیں آئیں سوائے ایک آدھ نظم کے۔ جو واحد نظم دو ایک مصرعوں کی دل کو لگی وہ یہ تھی:
نابینا کی جھولی میں
دو آنکھیں روشن رہتی ہیں
یہ نظم ان کی ٹوٹی پھوٹی نثری نظموں کی کتاب ’’آنکھیں‘‘ میں شامل ہے۔

یہ کتاب شاعر و افسانہ نگار احمد ہمیش نے شائع کی تھی اور ایک نسخہ مجھے بھی عنایت کیا تھا۔ ایک روز مشفق خواجہ صاحب نے فون کرکے پوچھا کہ کیا سارہ شگفتہ کی کتاب آپ کے پاس ہوگی؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’بھئی ہندوستان سے افسانے کے نقاد وارث علوی نے مجھ سے اس کتاب کی فرمائش کی ہے، تو آپ یہ کتاب مجھے دے دیں۔ باوجود تلاش کے یہ کتاب دستیاب نہیں ہے‘‘۔ میں کتاب دینے کے معاملے میں بڑا بخیل واقع ہوا ہوں اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بہ قول کوئی کتاب مانگ کر لے جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ کلیجہ نوچ کر لے جارہا ہے ۔ لیکن میں نے سارہ شگفتہ کی یہ کتاب بغیر کسی ردوقدح کے اٹھائی اور انہیں پہنچادی۔ وجہ اس کے سوا اور کیا تھی کہ اس کتاب کی کوئی قدر و قیمت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ اس لیے نہیں تھی کہ شاعری میرے نزدیک ایک فن ہے جو صرف زندگی کا تجربہ نہیں، اس فن پر عبورکا تقاضاریاضت و محنت ہے۔ زبان پر گرفت، خود صنف پر عبور اور مطالعے کے بغیر اگر کوئی شاعر یا اچھا شاعر بن سکتا تو لالوکھیت اور لانڈھی کورنگی کے مضافاتی سارے شاعر جو خود کو میر و مرزا غالب سے غزل میں کچھ کم نہیں گردانتے، واقعتاً شاعر ہی ہوتے اور مشاعروں میں پڑھنے کے لیے تقدیم و تاخیر کے مسئلے پر باہم دست و گریباں ہونے کے لیے کمربستہ نہ ہوجاتے۔ جب نثری نظم کی ہوا چلی تو یہ ہوا ایسی سہانی تھی کہ شہر کے ایسے نوجوان بھی جنھوں نے کسی ایک کلاسیکی یا جدید شاعر کو ڈھنگ سے پڑھا تک نہ تھا، خم ٹھونک کر شاعری کے میدان میں اتر آئے۔ نثری نظم چونکہ ویسے بھی وزن، بحر اور عروض کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے اس لیے کسی بھی نو آموز کے لیے اس صنف میں چار چھ لائنیں گھسیٹ دینا کون سی بڑی بات ہے، خصوصاً جب قمر جمیل مرحوم جیسا حوصلہ افزائی کرنے اور نثری نظم نگار کو بڑھاوا دینے والا نقاد بھی موجود ہو، ان کا ذہن اور پسند سطح آب کی طرح تھی جس پر لہریں بنتی بگڑتی رہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شگفتہ کی نثری نظموں کو بانس پہ چڑھایا، لیکن ایک عرصے بعد جب ان کا دوسرا انٹرویو کرنے گیا تو سارہ شگفتہ مرحومہ کی شاعری یا نثری نظمیں ان کی نظروں میں حقیر ہوچکی تھیں اور اب کے انہوں نے عذرا عباس کی نظم ’’نیند کی مسافتیں‘‘ کے گن گانے شروع کردیے۔ افسوس کہ قضا نے مہلت نہ دی ورنہ مجھے یقین ہے کہ قمر بھائی زندہ ہوتے تو اپنی اس رائے پر بھی نظرثانی کرلیتے اور کوئی تیسرا شاعر ان کی مبالغہ آمیز تعریف کا مستحق ٹھیرتا۔
بات دور نکل گئی، ذکر تھا سارہ شگفتہ کا۔ تو جب ان کے شاعر میاں کو اس حقیقت کا علم ہوا کہ ان کے دوست اور ان کی اہلیہ کے معاملات اب زبان زدِ خاص و عام ہوتے جاتے ہیں تو انہوں نے علیحدگی میں ہی عافیت جانی۔ شاعرہ بیوی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ یوں یہ علیحدگی عمل میں آئی، اور پھر اگلے مرحلے میں ان خاتون نے اپنے پہلے شوہر کے ان ہی دوست سے بیاہ رچالیا۔ لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصہ نہ چلی اور وہاں سے بھی طلاق نامہ لے کر ادبی محفلوں میں لوٹ آئیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، جو کچھ دوسروں پر یا جو کچھ ان خاتون پر بیتی اس کے واقعات خود ان شاعروں اور ادیبوں کی زبانی میں نے سنے جن کے ان خاتون سے ’’مراسم‘‘ رہے۔ لیکن مجھے ان کی تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہاں اتنا دہرا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادبی دنیا میں اپنا اعتبار اور ساکھ بحال کرنے یا بنانے کے لیے انہوں نے مذکورہ دونوں شاعر شوہروں کی بابت جھوٹی اور بے بنیاد کہانیاں پھیلانی شروع کیں۔ ان کہانیوں میں وہ خود نہایت مظلوم، بے گناہ اور بے قصور تھیں کیونکہ عورت تھیں، اور عورت کے بارے میں یہ اعتبار کرانا بہت آسان ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا اس پر ظلم ہی ہوا، اور مرد اگر مظلوم بھی ہو تو اس کا یقین دلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ اس پر بھی کوئی عورت ظلم کرسکتی ہے، اور وہ بھی سہہ کر خاموش رہنے اور برداشت کرنے کی تاب و طاقت رکھتا ہے۔

چنانچہ ان خاتون کی پھیلائی ہوئی کہانیوں میں چونکہ مقبول ہونے اور دوسرے لفظوں میں میڈیا اور صحافت و ادب میں ’’فروخت‘‘ ہونے اور درد مندانہ اپیل کے ساتھ لکھے جانے کا خاصا افسانوی مواد تھا، لہٰذا پھر اللہ دے اور بندہ لے ۔ اس پر افسانہ طرازی شروع ہوئی۔ یہ قصہ جب سرحد پار گیا تو پنجابی اور اردو کی شاعرہ اور افسانہ نگار امرتا پریتم نے ایک کتاب ’’ایک تھی سارہ‘‘ لکھ ماری۔ اب غیر مسلموں کا معاملہ آزادیٔ اظہار کا ایسا ہے کہ امرتا صاحبہ نے اپنے شوہر کی زندگی میں ساحر لدھیانوی سے اپنے معاشقے کی داستان ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں صاف صاف بیان کردی ہے، اس اعتماد کے ساتھ کہ شوہرِ نامدار کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے گی۔ اور ایسا ہوا بھی۔ چنانچہ ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ کے بعد امرتا کی سوانح کی اگلی جلد بھی شائع ہوئی۔ چلیے اتنی رعایت تو پھر بھی امرتا کے قصے میں ہے کہ ان کا عشق ذہنی، ادبی، روحانی جو نام دیں، وہ تھا۔ اس میں لذت و شہوتِ جسمانی کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ شاید اسی لیے شوہر نامدار اُن کے اس پر معترض بھی نہ ہوئے۔ یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ بہرکیف، امرتا پریتم سے سارہ صاحبہ کے مراسم استوار ہوچکے تھے اور کتاب کے لیے مواد بھی انہوں نے ہی غالباً فراہم کیا۔ ہمارے ہاں ٹی وی ڈرامہ نگار نورالہدیٰ شاہ نے بنا کسی تحقیق، اور حقائق کی کھوج کرید کے اس پر ایک ڈرامہ سیریل لکھ ڈالی۔ ہمارے محترم شاعر دوست کے ایک دوست جو ان دنوں ایک اخبار میں تبصرۂ کتب پر مامور ہیں، وہ کیوں پیچھے رہتے! ایک ناول انہوں نے بھی تصنیف کرڈالا۔ جو لوگ صحافی و ادیب ہوکر بھی زندگی سے کٹے ہوئے اور لاتعلق رہتے ہیں، ان کے پاس ویسے ہی موضوعات کی قلت ہوتی ہے۔ ان کا یہ ناول بھی ادبی حلقوں میں پڑھا تو یقینا گیا لیکن اس کا شمار کسی ڈھنگ کے معیاری ناولوں میں نہ کیا جاسکا۔ وجہ غالباً یہ رہی ہوگی کہ جب حقیقت کو توڑ مروڑ کر، مسخ کرکے افسانہ بنایا جائے، اور پھر افسانے کو مزید افسانہ بنانے کے لیے مرچ مسالہ لگایا جائے تو تاثیر تخلیق میں کہاں سے آئے گی! کیونکہ کسی بھی تخلیق میں تاثیر جہاں سے آتی ہے وہ تو صورتِ معاملہ کی حقیقت سے خوب واقف ہے۔ تو یوں یہ معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا کر، یا یوں کہیے کہ ادب اور میڈیا کی دنیا میں گردوغبار اڑا کر آہستہ آہستہ بیٹھ گیا۔ ہمارے محترم شاعر دوست نے اس حادثے کے بعد ادب، ادبی دنیا اور ادبی دوستوں سے خاصے عرصے کے لیے منہ موڑ لیا، بلکہ شہر چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ انہوں نے ان ساری جھوٹی اور بے بنیاد کہانیوں اور افسانوں کو کبھی درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ انہوں نے اپنے رب سے لو لگائی اور اپنی ذاتی زندگی کو ’’ادبی آلودگی‘‘ سے بچانے کے لیے ادبی حلقوں میں آنا جانا چھوڑ دیا۔ اب وہ شادی بیاہ کے بعد اولادوں کو تعلیم و تربیت دلاکر اپنے پیروں پر کھڑا کرکے ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ البتہ ان خاتون شاعرہ کا یہ ہوا کہ ملیر ہالٹ کے ریلوے پھاٹک سے گزرتے ہوئے تیز رفتار ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہوئیں۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ بعض ادویات کے استعمال کی وجہ سے انہیں ٹرین کی آمد کا پتا ہی نہ چلا۔
اب یہ پرانا دھرانا قصہ اگر اصل صورتِ معاملہ سے ناواقف لوگ فیس بک پر ڈالتے اور ایسے واقعات سے چسکہ لینے کی جو ہم لوگوں کی عادت ہے، چسکہ اور لطف لیتے ہیں تو اس چسکے سے ضرور لذت کشید کریں، لیکن اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے واقعات سے کچھ سبق بھی لے لیا کریں۔ بڑی عام سی بات ہے کہ اعتبار نہ ابتدا کا ہے نہ درمیان کا۔ یقین و اعتبار ہمیشہ خاتمے اور انجام کا ہے۔ اگر مذکورہ واقعے اور اس کے انجام سے کوئی سبق سیکھنے پر تیار نہ ہو تو اس کے لیے فقط دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اب یہ تو سننے والے پر ہے دعا سنے یا نہ سنے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود

The promising young poetess from Pakistan was taken away by the cruel hands of death in 1984 at a very young age of thirty.

Poetry was her bread of life, Sara got inspiration to write poetry when she was deeply hurt with the innocent death of her new born son and the callous indifference of her second husband towards the tragedy such a critical moment of her motherhood.

Ill treated by her husband’s and the un-mindful society, she was driven to madness and was constantly in and out of the mental asylums. She continued to write poetry with rare verve. She tried to commit suicide by taking poison several times but was saved by timely medical help. Towards the end of her life, love developed between her and Syed Ahmad but it was too late.

For Sara words were power in her hands. Despite her untimely death, she has left behind a rich poetic treasure. Here in this book, sandwiched between brilliant prose pieces, her terse and earthy poetry is surprisingly close to the style of Sylvia Plath.

چیونٹی بھر آٹا

A poem by “Sara Shagufta” from The Book Aankhein

ہم کس دُکھ سے اپنے مکان فرخت کرتے ہیں
اور بُھوک کے لئے چیونٹی بھر آٹا خریدتے ہیں
ہمیں بند کمروں میں کیوں پرو دیا گیا ہے
ایک دن کی عمر والے تو ابھی دروازہ تاک رہے ہیں ۔۔۔
چال لہو کی بوند بوند مانگ رہی ہے
کسی کو چُرانا ہو تو سب سے پہلے اُس کے قدم چُراؤ۔۔۔۔
تم چیتھڑے پر بیٹھے زبان پہ پھول ہو
اور آواز کو رسی کور

انسان کا پیالہ سمندر کے پیالے سے مٹی نکالتا ہے
مٹی کے سانپ بناتا ہے اور بُھوک پالتا ہے
تنکے جب شعاعوں کی پیاس نہ بُجھا سکے تو آگ لگی
میں نے آگ کو دھویا اور دُھوپ کو سُکھایا
سورج جو دن کا سینہ جلا رہا تھا
آسمانی رنگ سے بھر دیا
اب آسمان کی جگہ کورا کاغذ بچھا دیا گیا
لوگ موسم سے دھوکا کھانے لگے
پھر ایک آدمی کو توڑ کر میں نے سُورج بنایا

لوگوں کی پوریں کنویں میں بھر دیں
اور آسمان کو دھاگہ کیا
کائنات کو نئی کروٹ نصیب ہوئی
لوگوں نے اینٹوں کے مکان بنانا چھوڑ دئے
آنکھوں کی زبان درازی رنگ لائی
اب ایک قدم پہ دن اور ایک قدم پہ رات ہوتی
حال جراتِ گذشتہ ہے
آ تیرے بالوں سے شعاعوں کے الزام اُٹھا لوں

تم اپنی صورت پہاڑ کی کھوہ میں اشارہ کر آئے
کُند ہواؤں کا اعتراف ہے
سفر ایڑی پہ کھڑا ہوا
سمندر اور مٹی نے رونا شروع کر دیا ہے
بیلچے اور بازو کو دو بازو تصور کرنا
سورج آسمان کے کونے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا
اور اپنی شعاعیں اپنے جسم کے گرد لپیٹ رکھی تھیں
میں نے خالی کمرے میں معافی رکھی

Amirta Pritam

خراجِ عقیدت: امرتا پریتم

1919 – 2005

پیدائش : 31 اگست ،1919  گوجراں والا ،پاکستان

حقیقی نام : امرت کور

والدہ:راج بی بی ،جو امرتا کو ساڑھے دس برس کی چھوڑ کر سدھار گئیں

والد: نند سادھو سردار کرتار سنگھ ہتکاری، جن کا  1946 میں انتقال ہوا

بہن: کوئی نہیں

بھائی: ایک، جس کا ڈیڑھ دو سال کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا

شادی: 1936 میں

شوہر:پریتم سنگھ کواترا

رفیق حیات:امروز ،جن کے لئے امرتا نے کبھی کہا تھا:

’’…..باپ،بھائی، دوست اور خاوند کسی لفظ کا کوئی رشتہ نہیں ہے،لیکن جب تمہیں دیکھا تو یہ سارے لفظ بامعنی ہو گئے۔ ‘‘

اولاد: بیٹا،نوراج کواترہ ،پیدائش1947؛اس کی پیدائش سے پہلے ایک یتیم بچی کو گود لیا نام، کندلا

تعلیم: میٹرک،کالج گئیں ،لیکن ’’ …لگا کہ اس سے بہتر تو خود لکھ پڑھ سکتی ہوں۔ ‘‘باقی سب علمی خود افروزی

کام:1948  سے1959تک آل انڈیا ریڈیو میں پنجابی اناؤنسر

۰مئی 1966 اے2001 تک پنجابی رسالے ’ناگ منی‘ کی ادارت و اشاعت

اصل کام: شاعری، افسانہ نگاری،ناول نگاری،مختلف موضوعات پر بے شمار مضامین اور بے شمار تراجم

نمائندہ تخلیقات:

سنیہڑے،کاغذ اور کینوس ،خاموشی سے پہلے ،ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان،کچے ریشم کی لڑکی ،اننچاس دن،رنگ کا پتہ،چک نمبر چھتیس ،ایک تھی سارا،من مرزا تن صاحباں ،لال دھاگے کا رشتہ،لفظوں کے سائے ،درویشوں کی مہندی ،حجرے کی مٹی ،چراغوں کی رات،وغیرہ ،سو سے زیادہ تصانیف

آپ بیتی : رسیدی ٹکٹ

پہلی کتاب: ٹھنڈیاں کرناں (پنجابی) 1935 میں امرتسر سے شائع ہوئی

آخری کتاب: ’میں تمہیں پھر ملوں گی‘ نظموں کا مجموعہ

اعزازات: پدم وبھوشن ،پدم شری ،کے خطابات ،گیان پیٹھ ایوارڈ،ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، تفویض کئے گئے۔

دلی یونیورسٹی،جبل پور یونی ورسٹی،شانتی نکیتن اور پنجاب یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی۔ 1986سے 1992تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

پنجابی زبان کی صدی شاعرہ کا ایوارڈپیش کیا گیا۔

ان کے علاوہ کئی بین الاقوامی اعزازات بھی دئے گئے۔

کئی تخلیقات پر فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔ جن کی تعداد ابھی 9 ہے۔

ہندوستان میں کئی زبانوں کے علاوہ انگریزی ،روسی،فرانسیسی، چیک اور دیگر کئی یوروپی زبانوں میں تراجم

انتقال: 31 /اکتوبر 2005 نئی دلی

بشکریہ: اعجاز عبید

ترتیب : اسما سلیم

ایک درد تھا

جو سگریٹ کی طرح

میں نے چپ چاپ پیا ہے

کچھ نظمیں ہیں

جو سگریٹ سے میں نے

راکھ کی طرح جھاڑی ہیں ۔ ۔ ۔

میں تمہیں پھر ملوں گی

میں تمہیں پھر ملوں گی

کہاں؟ کس طرح؟ پتہ نہیں۔ ۔ ۔

شاید تمہارے خیالوں کی چنگاری بن کر

تمہارے کینوس پر اتروں گی

یا ایک پر اسرار لکیر بن کر

خاموش بیٹھی تمہیں دیکھتی رہوں گی۔ ۔ ۔

یا شاید سورج کی لو بنکر

تمہارے رنگوں میں گھلوں گی

یا تمہارے رنگوں کی بانہوں میں بیٹھ کر

کینوس پر پھیل جاؤں گی

پتہ نہیںکس طرح؟

کہاں؟ ۔

لیکن تمہیں ضرور ملوں گی ۔ ۔ ۔

یا شاید

ایک چشمہ بنوں گی

اور جیسے چشمے کا پانی ابلتا ہے

میں پانی کے قطرے تمہارے بدن پر ملوں گی

اور ایک ٹھنڈک سی بن کر

تمہارے سینے سے لگوں گی۔ ۔ ۔

میں اور کچھ تو نہیں جانتی

لیکن یہ معلوم ہے

کہ وقت جدھر بھی کروٹ لے گا

یہ جنم میرے ساتھ چلے گا ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ یہ جسم خاک ہوتا ہے

تو سب کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے

لیکن یادوں کے دھاگے

کائناتی ذروں سے بنے ہوتے ہیں

میں وہی ذرے چنوں گی

دھاگوں کو بٹوں گی

اور تمہیں پھر ملوں گی۔ ۔ ۔

یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں

جو عرفان چراغ

روشن ہواہے

وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

ستاروںکے لفظ اور کرنوں کی زبان

نقطے کے ارتعاش کی جو ابتدا ہے

وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

یہ مٹی کے سینے میں

آسمان کا عشق

اسی کا اشارہ ،اسی کی ادا ہے

وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں

جو عرفان چراغ

روشن ہواہے

وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

اولیں تخلیق

’’میں‘‘ایک نراکار میں تھی

یہ ’’میں ‘‘ کا تخیل تھا،

جو پانی کا روپ بنا

یہ ’’تو‘‘ کا تخیل تھا ،

جو آگ کی طرح کوندا

اور آگ کا جلوہ پانی پر تیرنے لگا

لیکن وہ تو تاریخ کے آغاز سے پہلے کی بات تھی

یہ ’’میں ‘‘کی تشنگی تھی

کہ اس نے ’’تو‘‘ کا دریا پی لیا

یہ ’میں ‘کی مٹی کا سبز خواب تھا

کہ ’تو‘ کا جنگل اس نے تلاش کر لیا

یہ ’میں ‘کی زمین کی مہک تھی

اور ’تو‘ کے آسمان کا عشق تھا

کہ ’تو‘ کا نیلا سا سپنا

مٹی کی سیج پر سویا

یہ تیرے اور میرے بدن کی خوشبو تھی

اور در اصل یہی اولیں تخلیق تھی

تخلیق کائنات تو بہت بعد کی بات ہے ۔ ۔ ۔

تخلیقی عمل

نظم کبھی کاغذ کو دیکھتی اور کبھی نظر چرا لیتی

جیسے کاغذ پرایا مرد ہو

اسی طرح جیسے

ایک کنواری جب کروے کا ورت رکھتی ہے

اور اس رات خواب میں دیکھتی ہے

کہ کسی مرد کا بدن اسے چھوتا ہے

تو خواب میں بھی کانپ کانپ جاتی ہے ۔

لیکن کبھی وہ خود آگ کا لمس محسوس کرتی

اورچونک کر جاگ جاتی

تب گدرایا بدن چھو کر دیکھتی

چولی کے بٹن کھولتی

چاندنی کے چلو بھر کر بدن پر چھڑکتی

پھر بدن سکھاتی

تو ہاتھ کھسک جاتا

بدن کا اندھیرا چٹائی پر بچھ جاتا

وہ اوندھی سی چٹائی پر لیٹتی

اس کے تنکے توڑتی

تو انگ انگ سلگ اٹھتا

اسے لگتا

کہ بدن کا اندھیرا

کسی طاقت ور بازو میں ٹوٹنا چاہتا ہے

اچانک ایک کاغذ سامنے آتا

اس کے کانپتے ہاتھوں کو چھوتا

اس کا ایک انگ جلتا،ایک انگ پگھلتا

وہ ایک اجنبی گندھ سونگھتی

اور اس کا ہاتھ

بدن میں اترنے والی لکیروں کو دیکھتا

سویا سا ہاتھ اور اداس سا بدن

گھبرا کے ماتھے پر ابھرنے والی

پسینے کی بوندیں پونچھتی

ایک لمبی لکیر ٹوٹتی

اور سانس زندگی اور موت کی

دوہری گندھ میں بھیگ جاتی

یہ سبھی کمزور اور سیاہ لکیریں

جیسے ایک طویل چیخ کے کچھ ٹکڑے

وہ خاموش ،حیران انہیں دیکھتی

اور سوچتی

شاید کوئی ظلم ہو گیا ہے

یا کوئی انگ مر گیا ہے

شاید ایک کنواری کا اسقاط اسی طرح ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

میرا پتہ

آج میں نے اپنے گھر کا نمبر مٹا دیا

اور گلی کی پیشانی پر ثبت گلی کا نام مٹا دیا

اور پھر سڑک کی سمت کا نشان پونچھ دیا

پھر بھی اگر تم مجھے تلاش کرنا چاہو

تو ہر ملک کے ،ہر شہر کی ،ہر گلی کا

دروازہ کھٹکھٹاؤ۔

جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پاؤ

سمجھنا

وہیں میرا گھر ہے ۔

خداسے مخاطب

جب ہر ستارہ

ہر گردش سے گذر کر

تیرے سورج کے پاس آنے لگے

تو سمجھنا

یہ میری جستجو ہے

جو ہر ستارے میں نمایاں ہو رہی ہے۔ ۔ ۔

سائیں

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔

یہ تیری محبت تھی

جو اس پیکر میں ڈھلی

ا ب پیکرسلگے گا

تو ایک دھواں سا اٹھے گا

دھوئیں کا لرزاں بدن

آہستہ سے کہے گا

جو بھی ہوا بہتی ہے

درگاہ سے گذرتی ہے

تیری سانسوں کو چھوتی ہے

سائیں!آج مجھے

اس ہوا میں ملنا ہے

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔

جب بتی سلگ جا ئے گی

ہلکی سی مہک آئے گی

اور پھر میری ہستی

راکھ ہو کر

تیرے قدم چھوئے گی

اسے تیری درگاہ کی

مٹی میں ملنا ہے۔ ۔ ۔

سائیں!تو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔۔

پنجابی سے ترجمہ

Comments»

1. ritu toor - March 19, 2010

very sad to know that women are still treated like tissue paper…..but hates off to this lady, who’s gone through so much in her life. we must all stand up and raise our voices against violence…..sara i wish you were alive….

2. ibn-e-Razmi - October 8, 2010

Angel of Sucide,
All the my words,silence, which are getting birth from my soul,because of this heaven,People named
” Sara Shagufta ”

Ibn-e-Razmi
Kabirwala

3. Arshad Saleem - November 15, 2011

Upcoming Sunday Special Edition of The Daily Basharat Karachi on
Sara Shagufta ”Life & Art”

4. waqar ahmad - June 17, 2015

Excellent poetry, the pain spread in words and niche in heart with the sword of moments inch by inch, until the pain lost its worth. how pain full to know that she is no more in this world….. prayers for the soul, love for the words….and wet ‘Aankhen” ?


Leave a comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.