jump to navigation

Kanwal Malik – کنول ملک

”کومل کنول ملک“

لفاظ کے سمندر میں اپنے عکس کی تلاش خاصا دشوار کام ہے، شعر و ادب کی دنیا میں لکھنے والے اپنے اپنے انداز سے مصروفِ عمل رہتے ہیں، ان کے خیالات کی گہرائی رفتہ رفتہ قلم کی طاقت بن جاتی ہے، ایسی ہی ایک قلمکار سے میری شناسائی دبئی کے دو مشاعروں اور فیس بک کے ذریعے ہوئی، ان کا پیکر ان کا لہجہ خوبصورت و دلکش لگا، مختصر سی ملاقات میں کسی کی شخصیت کو مکمل طور پر تو نہیں جان سکتے لیکن مسکراتی ہوئی کنول ملک مجھے متاثر کیا، ملائم سی شخصیت اور میٹھی آوازکی مالک ہیں، دبئی میں ملازمت کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں اپنی پہچان رکھتی ہیں، بقول ان کے کہ بارہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور اسکول میں پڑھائی کے دوران ہی پہلا مجموعہئ کلام منظر عام پر آ گیا تھا، خوبصورت خدوخال کی بنا پر ان کی ریڈیو، ٹیلیویژن اور فلم سے وابستگی ہے، اس کتاب بعنوان ”تمہارے نام“ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے میں ان کی ستائش میں زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملاؤں گی بلکہ کلام کے مطالعے کے بعد اپنے کچھ ذاتی تاثرات پیش کررہی ہوں۔

بحیثیت شاعرہ کنول ملک نے نسائی جذبات کی ترجمانی نزاکت اور کرب سے کی ہے، کیفیات و محسوسات کا کرب، مسکراہٹوں اور آنسوؤں کا امتزاج،بے بسی کی لہریں،تلخ و شیریں یادوں کی شدتیں، غزلوں، نظموں کا روپ دھارے کھڑی ہیں، ان کے احساسات کے بیان سے علم ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکنیں چھلنی ہیں   ؎  

بات کرتا تھا وہ مگر آدھی

سو مجھے بے قرار کرتا تھا

شعر و ادب کی دنیا میں ان گنت خواتین لکھتی رہیں اور لکھ رہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے قلم کو زنجیریں پہنانے والوں کی بھی کمی نہیں، نسائی شعور و بصیرت کو دیکھنا صنفِ مخالف کے لیئے تازیانے سے کم نہیں، اسی ضمن میں یہ بھی درست ہے کہ خواتین کو چنے کے جھاڑ پر چڑھانے کے لیئے (جس کے پسِ پشت ذاتی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں) ان کو مغرب، برصغیر ہند و پاک کی نامور لکھنے والیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا جاتا ہے، تعریف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں، اب یہاں لکھنے والی کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ اپنا مقام، کام و محنت کا تجزیہ کیسے کرے گی کیونکہ اپنی ذات کی ہر تہہ کو اپنے آپ سے بہتر نہ کوئی کھول سکتا ہے اور نہ کوئی شناخت کر سکتا ہے ! ؎

جو راکھ پھینکو تو یاد آئے وہ ایک لڑکی

کہ جس کو تم نے سمجھ کے سگریٹ

جلا جلا کے بجھا دیا تھا

کہ راکھ جس کو بنا دیا تھا

دھوئیں میں جس کو اڑا دیا تھا

جلاؤ سگریٹ۔۔۔ بجھاؤ تیلی

الفاظ میں بہت گہرائی ہوتی ہے، یہ ہمارے شعور کے مظہر ہوتے ہیں، لکھنے والے کی ہستی کا بیان پڑھنے والوں کی ہستی کا عکاس بن جاتا ہے، کنول ملک جو سوچتی ہیں وہی لکھ رہی ہیں، اس بارے میں ان کو کوئی خوف یا شرمندگی نہیں یہی ایک سچے قلم کا وقار ہے، جدائی کی ہر واردات کو بیان کیا ہے انہوں نے، وصال کے موتیوں سے چمک نہیں چھینی، ڈر، خوف، تنہائی کو بیان کیا ہے تو وہیں، محبت پیار اور عشق کی انتہا بھی ظاہر کی ہے، یہ اپنی شاعری کے ذریعے شبنمی الفاظ اور گلاب کی پنکھڑیوں کی آمیزش سے کسک بھرے جذبات بیان کرتی ہیں  ؎

اب خواب بہے ہیں کاجل میں

ہیں راتیں سیلی سیلی سی

پلکیں ہیں گیلی گیلی سی

آنکھوں کے خواب دریچے سے

وہ چاند سا چہرہ اوجھل ہے

وہ محبوب جو کھوگیا ہے، وہ چہرہ جو گم ہوگیا ہے، وہ لمحے جو بیت چکے ہیں، وہ ساتھ جو فاصلوں میں بدل گیا ہے، کنول کی شاعری میں اس کا دکھ صاف نظر آتا ہے، درد و فراق، تنہائی کی شدتیں، زندگی کے تمام جھمیلوں کے باجود جب انسان اپنی ذات کے گیان میں بیٹھتا ہے تو دھیان اس جانب مبذول ہوتا ہے جس کی دل کو طلب ہو، کنول اس طلب کا اظہار برملا کرتی ہیں کبھی خوشی کے رنگ میں تو کبھی تلخی کے لہجے میں، ان کے الفاظ کا تانا بانا مسلسل کسی بچھڑے ہوئے کی بانسی کی دھن سناتا ہے، آنسوؤں کے دھارے میں شب گزاری پر مجبور کرتا ہے  ؎

میری پلکوں پہ برسات چلتی رہی رات ڈھلتی رہی

اپنی بھیگی ہوئی آنکھیں ملتی رہی رات ڈھلتی رہی

کنول کی ہتھیلی پر کسی نے ایک وعدہ رکھا اور پھر اسے بھول گیا، وہ اس وعدے کو لیئے امید بنتی ہے جو کہ رفتہ رفتہ مایوسی و اداسی کا روپ دھار لیتی ہے، اس وارداتِ قلب کو شاعری نے اظہار دیا     ؎ا  

بن ترے چار سو اداسی ہے

جسم بیکل ہے روح پیاسی ہے

کسی آواز میں آواز ملانے کی خواہش، کسی سوچ تک اپنی سوچ کی رسائی، اس کی زبانی کھلتے گلابوں کا حسن دیکھنے کی خواہاں صنفِ نازک صحرا جیسی پیاسی کیوں ہے، وہ کہتی ہیں کہ خواہش تو خواہش ہوتی ہے چھوٹی یا بڑی سے کوئی سروکار نہیں بس ! ؎

میں جو کہتی تھی کیا کہا تم نے

کچھ نہیں کہہ کے وار کرتا تھا

 ان کی روح کے نغمے اپنا سُر کھو کر ادھورے ہوئے جا رہے ہیں،زخم تازہ رہتے ہیں ؎  

آج بیٹھا تھا اجنبی بن کر

جو  کہ  اپنا شمار کرتا تھا

خوابوں اور یادوں کی چلمنیں ہٹا کر جھانکنا، الفاظ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا اور ریت کے گھروندوں کی بستیاں بسانا آپ کو غیر محسوس طریقے سے ان کی زندگی میں لے جاتا ہے، جہاں شہرِ دل کے نامکمل خواب تعبیر کی تلاش میں ہیں، ان کی نظم ”شاہجہاں“ کی کچھ سطریں ملاحظہ کیجئے ؎   

یہ جو پائلوں کی ہیں مستیاں

یہ جو میری آنکھوں میں خواب ہیں

یہ جو اشک سے ہیں رواں دواں

یہ ترے لیئے مرے شاہجہاں!

شاعری وہ زبان ہے کہ جسے سمجھنے کے لئے کسی کا مرہونِ منت نہیں ہونا پڑتا، لکھنے والے کی نظر ٹکٹکی باندھ لے تو خود بخود رنگسازی ہونے لگتی ہے ،کتنی دھوپ کھلتی ہے یا کتنی بارش برستی ہے، ہوا گنگناتی ہے کہ سرگم رقص کرتی ہے ،ندیوں اور دریاؤں کے دھارے سمندروں سے ملتے ہیں، کبھی دشت و صحرا تو کبھی سر سبز و شاداب وادیوں کی زرخیز یاں دکھائی دینے لگتی ہیں، یہ جادوگریاں اشعار کے ذریعے کافی حد تک ممکن ہیں۔

سالگرہ کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم میں کہتی ہیں ؎  

کوئی بھی رنگ نہیں موسموں میں تم جیسا

کوئی نظارہ نہیں ہے تمہاری آنکھوں سا

مہک نہیں ہے کہیں بھی تمہاری سانسوں سی

کوئی بھی نظم نہیں ہے تمہارے لہجے سی

کوئی بھی شعر نہیں ہے تمہاری باتوں سا  

نفاست سے جمالیاتی اقدار کی جھلک دکھانا، ماورائی دنیا کے مناظر کی تصویر کشی یا قارئین کی سوچ کو زندگی کے ٹھوس پہلوؤں کی جانب موڑنا، نظام حیات کا تجزیہ و مشاہدہ سامنے لانا، یہ سب ایسا ہے جیسے بھری بھری زمین یا کھلیان میں سونے کی طرح دمکتا گندم، اسی کو شاعری کا جادو کہتے ہیں، تخیل کی اس دھرتی پر لفظ کا چھڑکاؤ غزل کا پھول بن کر نکھرتا ہے اور نظم کی ٹہنیاں بھی لہلہاتی ہیں۔

کنول کی شاعری میں وطن کی محبت بھی شامل ہے، اپنی نظم ”پیارے پاکستان کی مٹی کے نام“ میں کہتی ہیں ؎

دھرتی تجھ سے میرا رشتہ ماں جیسا

میرے خون کا ہر اک قطرہ تیرے نام

دھرتی تونے بخشی ہے پہچان مجھے

میری ہر اک سانس کا تحفہ تیرے نام

شاعری کے موضوعات و فکری رموز سے باخبر ہونا اور فن کے سانچے سے گزرنا گو کہ سہل نہیں مگر اپنے احساس کی اہمیت کو محسوس کروانا شاعر کے فن کا عروج ہوتا ہے اور اس مرحلے تک پہنچنے کے لئیے تجربے اور عرق ریزی سے گزرنا لازمی ہے، کنول کی شاعری میں ہجر و وصال، رومانویت، نرم رو ی و صلح جوئی کا رویہ نظر آتا ہے لہذا یہ اپنے اس اثاثے ک ونظم و غزل کی لڑیوں میں پرو رہی ہیں۔ ؎

تم کو کھونے کا خوف رہتا ہے

تم   مرا   قیمتی   اثاثہ   ہو

انسان کی زندگی ایک راہِ خاردار ہے جہاں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کے باوجود ببول کے کانٹے پاؤں میں گڑ ہی جاتے ہیں ،خاص طور پر صنفِ نازک کو پتھر کردینا آج کے جدید دور میں بھی ممکن ہے، نہ وہ پلٹ کر دیکھ سکے اور نہ ہی آگے بڑھ سکے، عورت کو مفتوح کی حیثیت میں دیکھنا اسے شکست دینا بیشتر کا تصور ہے، روایات و اخلاقیات کا بگل بجانے والے عملی طور پر آج بھی عورت کے بے زبان رہنے پر قائل ہیں؎۔

آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش نہیں تھمی

اہل زمیں نے درد ہی اتنا دیا کہ بس

؎

مرے لفظوں میں اتنی چاشنی تھی

میں کھا کر زہر میٹھا لکھ رہی تھی

 ؎

میں محبت مزاج لڑکی تھی

بیوفائی تھی اس کی فطرت میں

؎

کب ملتا ہے چاند کنولؔ

اشک سمجھ کر پی لے خواب

؎

میں سسی کی چھوٹی بہنا، تپتی ریت ہے  میرا گہنا

نین سمندر خالی میرے، ٹوٹے میرے پیالے دیکھ

؎

پھر ہوا یوں کہ میری ماں نے مجھے

ہائے پردیس بھیج ڈالا تھا

مجھ کو دیکھے بنا مری ماں اب

جانے کب کس طرح سے سوتی ہے

جانے کتنی اداس ہوتی ہے

جانے کتنے ہی اشک روتی ہے

خدا کرے کہ ان کے سپنوں میں خوشبو مہکے، شفق کے گلابی گجرے ان کی شاعری میں گندھے رہیں، کنول ملک یقیناََ ایک با صلاحیت شاعرہ ہیں، اپنے گوناگوں افکار کو انہوں نے بحسن و خوبی مجتمع کیا ہے، جس سے ان کے کلام کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، کنول ملک نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ    ؎

’’ ایک لمحہ جو مجھے سونے نہیں دیتا، میں اس کے ہاتھوں کے کٹوروں میں پانی بھر رہی تھی، وہ پی رہا تھا جیسے صدیوں کا پیاسا ہو، اور جب میں پیاسی تھی، اس نے میری جانب آنے والے سب دریاؤں کا رخ موڑ دیا اور میں ریگِ صحرا میں پیاسی بھٹکتی رہی! ’’

شاعر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک خواب، ایک ایک منظر اور ہر مشاہدہ اپنے الفاظ میں پرو دیتا ہے، اس افق پر ظاہر ہونے کے بعد ہر لکھنے والا اپنی علیحدہ پہچان بناتا ہے، زندگی کی پیچیدگیوں اور نفسیات کی گہرائیوں پر غور کرتا ہے اور لکھتا ہے، مجھے امید ہے کہ معلومات کے خزانے سے بھرپور یہ دنیا ان کے فن کو مزید جلا بخشے گی !

میں اپنی جانب سے ان کو اس شعری سفر اور مجموعۂ کلام کی اشاعت پر تمام تر پر خلوص دعائیں و مبارکباد پیش کرتی ہوں، خدا کرے کہ ان کی لگن کا یہ چراغ ہمیشہ جلتا رہے۔

                              از قلم : فرزانہ خان نیناؔں

  ۱ دسمبر  ۲۰۱۵  یو کے

Multi Letter N 1Multi Letter A 1Multi Letter i 1  Multi Letter N 1Multi Letter A 1