Khushwant Singh March 20, 2014
Posted by Farzana Naina in Literature, Urdu, Urdu Literature.Tags: Khushwant Singh
add a comment
بھارتی صحافت اور ادب کے’ڈرٹی اولڈ مین‘ خشونت سنگھ تقریباً چھ دہائیوں تک بھارتی ادب اور صحافت پر چھائے رہے۔
وہ السٹریٹڈ ویکلی اور ہندوستان ٹائمز سمیت کئی جریدوں اور اخبارووں کے ایڈیٹر رہے لیکن انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز لاہور ہائی کورٹ میں ایک وکیل کی حیثیت سے کیا تھا۔
بعد میں وہ سفارتکار بھی رہے لیکن انہیں ایک ایسے صحافی اور ادیب کے طور پر یاد کیا جائے گا جس نے اپنی تحریروں میں کبھی ’پولیٹکلی کریکٹ‘ رہنے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے وہ لکھا جو ان کےدل میں تھا۔
وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرتے تھے اور اکثر سیکس اور خواتین پر اپنے بیانات کی وجہ سے تنازعات میں گھر جاتے۔ اسی لیے انہیں بھارتی ادب کا ’ڈرٹی اولڈ مین‘ کہا جانے لگا تھا لیکن انہوں نے اس لقب پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔
لیکن آؤٹ لک جریدے کے مدیر ونود مہتا سے ایک بات چیت کے دوران انہوں نے مذاق میں کہا تھا کہ ’لوگ مجھے ڈرٹی اولڈ مین تو کہنے لگے ہیں لیکن میری کتابوں میں آپ کو سیکس کا زیادہ ذکر نہیں ملے گا۔۔۔میں نے زیادہ تر سنجیدہ موضوعات پر لکھا ہے۔‘
وہ دو فروری انیس سو پندرہ کو ہڈالی میں پیدا ہوئے تھے جو اب پاکستان میں ہے۔ تقسیم کے جنون پر ان کی کتاب ’ٹرین ٹو پاکستان’ نے انہیں سب سے زیادہ شہرت دلائی۔ یہ کتاب 1956 میں شائع ہوئی تھی اور اب بھی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے۔
ہندوستان ٹائمز میں دہائیوں سے ان کا ہفتہ وار کالم ’ود میلس ٹوورڈز ون اینڈ آل‘ (بخشا کسی کو نہیں جائے گا) بےانتہا مقبول تھا، کچھ ان کے لکھنے کے سادہ انداز کی وجہ سے اور کچھ ان کی حق گوئی اور بے باکی کی وجہ سے۔
مصنفہ سعدیہ دہلوی نے ایک مرتبہ خشونت سنگھ کے بارے میں کہا تھا کہ’ اگر خشونت سنگھ عورت ہوتے تو ہمیشہ امید سے ہی رہتے کیونکہ انہیں کسی کام کے لیے منع کرنا نہیں آتا تھا۔‘
اردو ادب اور شاعری کا انہیں بے پناہ شوق تھا جس کی جھلک ان کے مضامین میں خوب نظر آتی تھی اور ان کی ظرافت شناسی بے مثال تھی جس کا وہ اپنے کالم میں بھرپور استعمال کرتے تھے۔
موت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’ہمارے گھروں میں موت کا شاذ ونادر ہی ذکر کیا جاتا ہے، نامعلوم کیوں جبکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ موت آنی ہی ہے، خدا میں شک ہو تو ہو، موت میں نہیں کوئی شک۔۔۔ پچانوے سال کی عمر میں، میں اکثر موت کے بارے سوچتا ہوں، لیکن اتنا نہیں کہ نیند اڑ جائے۔ جو لوگ گزر چکے ہیں، ان کے بارے میں سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہوں گے، مجھے اس کا جواب نہیں معلوم کہ مرنے کے بعد آپ کہاں جاتے ہیں، پھر کیا ہوتا ہے۔۔۔؟‘
’بس میں امید کرتا ہوں کہ جب موت آئے، تو تیزی سے آئے، زیادہ تکلیف نہ ہو، جیسے بس آپ سوتے ہوئے اس دنیا سےچلے جائیں۔‘
خشونت سنگھ کو اپنے سوالوں کا جواب ملے گا یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن موت انہیں ویسی ہی نصیب ہوئی جیسی وہ چاہتے تھے
بشکریہ: سہیل حلیم: بی بی سی اردو دہلی
وہ فروری سنہ 1915 کو موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے تھے۔
انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھارت کے شہر دہلی میں حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لیے لاہور کے گورنمنٹ کالج کا رخ کیا تھا۔
برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔
تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت نئی دہلی میں بس گئے۔ وہ کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔
ان کا ذرائع ابلاغ سے تعلق 1940 کی دہائی کے آخر میں اس وقت قائم ہوا تھا جب انھوں نے وزارتِ خارجہ میں ملازمت کی اور پہلے کینیڈا اور پھر برطانیہ اور آئرلینڈ میں افسرِ اطلاعات اور پریس اتاشی کے طور پر بھارتی حکومت کی نمائندگی کی۔
سرکاری ملازمت کے دوران ہی انھوں نے ملک کے منصوبہ بندی کمیشن کے جریدے ’یوجنا‘ کی ادارت سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا اور سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد1951 میں صحافی کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کریئر کا آغاز ہوا۔
پدم بھوشن کی واپسی
بھارتی حکومت نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجاً انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔
وہ بھارت کے مشہور جریدے نیشل ہیرالڈ جو کہ بعد میں السٹریٹڈ ویکلی کہلایا کہ مدیر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔
خشونت سنگھ نے 30 سے زیادہ ناولوں کے علاوہ درجنوں افسانے اور مضامین سمیت 80 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں۔
بطور ادیب انھیں سب سے پہلے پہچان برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے ناول’ٹرین ٹو پاکستان‘ سے ملی جسے 1954 میں عالمی شہرت یافتہ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا
اس کے علاوہ انہوں نے ’ہسٹری آف سکھ‘ کے نام سے سکھ مذہب کی تاریخ بھی لکھی جسے اس سلسلے میں ہونے والا سب سے ٹھوس کام سمجھا جاتا ہے۔
عمر کے آخری دور میں بھی وہ لکھنے لکھانے میں مصروف رہے اور گزشتہ سال ان کی کتاب ’خشونت نامہ: دی لیسنز آف مائی لائف‘ شائع ہوئی تھی۔
خشونت سنگھ 1980 سے 1986 تک بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ بھارتی حکومت نے انہیں 1974 میں ملک کے دوسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے نوازا تھا لیکن 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیو سٹار پر احتجاجاً انہوں نے یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔
ان کے انتقال پر بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی سرکاری ٹویٹ میں کہا گیا، ’وہ ایک باصلاحیت مصنف اور پیارے دوست تھے۔ انہوں نے واقعی ایک تخلیقی زندگی گزاری۔‘
ان کی موت پر مورخ رام چندر نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ’خشونت سنگھ اپنی سکھوں کی تاریخ کے باعث یاد کیے جائیں گے۔ اگرچہ ہم انہیں بھول سکتے ہیں لیکن ان کی کتابیں اور سخاوت یاد رکھی جائے گی۔‘
مصنف امتیاو گھوش نے ٹویٹ کرتے ہوئے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا، ’عظیم مؤرخ، ناول نگار، ایڈیٹر، کالم نگار اور ایک شاندار آدمی خشونت سنگھ کی موت بہت افسوس ناک خبر ہے۔
گلاب جامن اور سانولی لڑکیاں