jump to navigation

Bhutto – The Movie May 17, 2010

Posted by Farzana Naina in Karachi, News, Pakistan, Pakistani, Politics, Sindh.
Tags: , ,
add a comment

پاكستان كى سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو كى زندگى پر کلِک مارک سیگل نے ’بھٹو‘ كے نام سے ایك دستاویزى فلم بنائى ہے۔۔كینیڈا كے مشہور دستاویزى فلمى میلے ’ہاٹ ڈاكس‘ میں ایک سو پندرہ منٹ دورانیے پر محیط اس فلم كی نمائش کی گئی ہے۔

اس فلم میں بختاور بھٹو زردارى كا تیار كیا ھوا نغمہ بھى شامل كیا گیا ہے۔

فلم میں بھٹو خاندان كو امریكہ كے كینیڈى خاندان سے مشابہت دى گٰئى ہے۔ اس فلم میں بینظیر، ان كے والد ذوالفقار على بھٹو اور شوہر آصف على زردارى كى شخصیتوں كا احاطہ كیا گیا ہے۔

کلِک فلم كى كہانى پاكستان بننے سے پہلے سےشروع ہوتى ہے اور اس میں پاكستان كا كیس بطور ’نیوكلیئر نیشن‘ یعنی جوہری ملک بہت اچھے طریقے سے پیش كیا گیا ہے۔

اس میلے میں فلم كا افتتاحى شو یکم مئی کو ہوا جس كے لیے تمام ٹکٹ پہلے ہى بِك ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود لوگوں كى ایك بڑى تعداد بارش كے باوجود مشہور بلور سنیما گھر كے باہر چانس كى ٹكٹوں پر داخلے كے لیے انتظار كرتى رہى۔
اس فلم كو جنورى میں مشہور امریكى فلمى میلوں سن ڈانس فلم فیسٹویل اور شكاگو فلم فیسٹیول میں اعزازت ملے ہیں

میلے میں فلم کا دوسرا شو چار مئی کو ہے۔

فلم میں پاكستان كے سابق صدر پرویزمشرف، دانشور طارق على، صنم بھٹو، دفاعی امور کے ماہر شجاع نواز، امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانى، امریکہ کی سابق وزیر خارجہ كنڈولیزا رائس، بینظیر کے شوہر آصف على زردارى، برطانوى صحافى كرسٹینا لیمب، بینظیر کے دوست اور مشیر مارك

سیگل اور مسلم لیگ نواز كے رہنما خرم دستگیر كے علاوہ بینظیر كے تینوں بچوں كے انٹرویو قابل ذكر ہیں۔

اس فلم كو میلے کی پانچ اہم دستاویزی فلموں میں شمار كیا جا رہا ہے اور حال ہى میں اقوام متحدہ كى بینظیر قتل پر تفتیشى رپورٹ نے اس فلم كى اہمیت بڑھا دى ہے۔

فلمى مبصر اس فلم كو اس سال كى بہترین دستاویزى فلم كے اعزاز كى توقع كر رہے ہیں۔

فلم میں بتایا گیا ہے كہ بینظیر كے بچے كن مشكلات سے گزرے جب وہ ان سے دور تھیں اور وہ كس طرح پلے بڑھے۔ جب بینظیر ان سے دور ہوتیں تو بچے ان كے لیے نظمیں لكھتے تھے۔

اس فلمى میلے میں شریك پاكستانى نژاد كینیڈین فلمساز حارث شیخ نے فلم پر تبصرہ كرتے ہوے كہا كہ ’اس فلم ’بھٹو‘ سے پاكستان كے بارے میں مغربى ناظرین كو بہت كچھ نیا ملے گا اور یہ ایك اچھى دستاویزى فلم ہے۔‘ (حارث شیخ اس میلے میں پیغمبر اسلام كے گستاخانہ كارٹونوں كے متعلق

بنائى اپنى فلم ’بلاسفیمى‘ پرموٹ كر رہے ہیں۔)

فلم میں صدر آصف على زردارى كى زندگى جس میں بچپن سے لے كر بےنظیر سے شادى اور پھر صدارت تك پہنچنے تك كے بارے میں بہت دلچسپ معلومات دكھائى گئى ہیں۔

بینظیر بھٹو کے بچےفلم میں بینظیر بھٹو کے تینوں بچوں کے انٹرویو شامل ہیںاس فلم میں یہ بھی بتایا گیا ہے كہ بینظیر كى آصف على زردارى سے ’ارینجڈ میرج‘ كن کن مراحل سے گزرى ۔فلم كے ڈائریكٹر ڈویئن بوگمین نے بتایا كہ ’اس فلم پر كام كرنا ان كے لیے ایك اچھا تجربہ رہا ہے اور پاكستان كى سیاست بڑى دلچسپ ہے۔ جس كے بارے میں كوئى كچھ نہیں كہ سكتا۔

فلم میں ذوالفقار على بھٹو كى بیٹى ایك فلم سٹار كى طرح نظر اتى ہیں جسے مغربى ناظرین نے بہت پسند كیا ہے۔ بھٹو خاندان كے بارے میں بہت سارے ایسے مناظر اس فلم میں شامل ہیں جو پہلے كھبى نہ دیكھے گئے تھے۔

اس سے قبل اس فلم كو جنورى میں مشہور امریكى فلمى میلوں سن ڈانس اور شكاگو فلم فیسٹیول میں بھى اعزازت ملے ہیں۔

ایك فلم بین فلپ ڈیوس نے بتایا كہ اس فلم نے ان كے ’پاكستان كے بارے میں كئى شكوك دور كیے ہیں‘ مگر بےنظیر كے قاتلوں كےانجام كے بارے میں عنقریب اسى طرح كى فلم ان كى شدید خواہش ہے

فلم کے پروڈیوسر مارك سیگل نے انٹرویو كے دوران بتایا كہ ’پاكستان اور بھٹو خاندان ناقابل تقسیم ہیں۔ مجھے یقین ہے كى اگر بینظیر زندہ ہوتیں تو جمہوریت كى جنگ جارى ركھتیں‘۔

Trailor of The movie Bhutto

http://www.bhuttothefilm.com/trailer.html

Courtesy of BBC

Book By Benazir Bhutto(Quotes) February 7, 2008

Posted by Farzana Naina in Pakistan, Politics, Urdu.
Tags: , , , ,
1 comment so far

بینظیر بھٹو کی کتاب سے اقتباسات

’ائرپورٹ سے نکل کر میرا بکتر بند ٹرک چیونٹی کی رفتار سے چل رہا تھا کیونکہ آس پاس مجمع بڑھتا جا رہا تھا۔شام ڈھلی تو سٹریٹ لائٹس مدھم ہوتے ہوتے بجھنے لگیں۔موبائل فون کے سگنل جیم کرنے والے آلات بھی کام نہیں کر رہے تھے، جن کا کام کسی متوقع خود کش بمبار یا بارود سے بھرے ریموٹ کنٹرولڈ کھلونا ہوائی جہاز کو میرے ٹرک کے قریب پھٹنے سے روکنا تھا۔

میرے شوہر آصف نے دبئی میں ٹی وی پر میرے قافلے کی لائیو کوریج دیکھتے ہوئے مجھ سے بات کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ٹرک کی چھت پر کھڑے ہو کر عوام کے سامنے آنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں اپنے عوام کے سامنے آ کر ہی ان کا استقبال کروں گی۔

رات گیارہ بجے سے کچھ بعد میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے ایک شیر خوار بچے کو پیپلز پارٹی کے جھنڈے سے ملتے جلتے کپڑے پہنا رکھے تھے اور اسے ہاتھوں میں اٹھائے وہ بار بار مجھے اشارے کر رہا تھا کہ میں بچے کو تھام لوں۔میں نے ہجوم کو اشارہ کیا کہ وہ اس شخص کے لیے راستہ بنائیں۔ لیکن جب اس کے لیے راستہ بن گیا تو وہ آگے آنے سے کترانے لگا اور اس نے بچہ ہجوم میں کسی کے حوالے کرنے کی کوشش بھی کی۔ مجھے تشویش ہوئی کہ بچہ زمین پر گر کر ہجوم کے پیروں میں کچلا نہ جائے، یا کھو نہ جائے۔

میں نے اشارہ کیا کہ نہیں، بچے کو میرے پاس لے کر آؤ۔ میں نے سکیورٹی گارڈ کو بھی اشارہ کیا کہ اس شخص کو ٹرک کے اوپر آنے دیا جائے۔ تاہم جب تک وہ شخص ٹرک تک پہنچا میں ٹرک کے اندر بنے کمرے میں آ چکی تھی کیونکہ میرے پاؤں درد کرنے لگے تھے۔ ہمیں شبہ ہے کہ اسی بچے کے کپڑوں کے نیچے پلاسٹک دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا۔

ایک ہی جگہ پر دس گھنٹے کھڑے رہنے سے میرے پیر سوج گئے تھے اور جوتا پہننے سے مزید تکلیف ہو رہی تھی۔ میں نے سینڈل کے سٹریپ کھولے اور اپنی سیکرٹری ناہید خان کے ساتھ اس تقریر کے مسودے پر کام کرنے لگی جو مجھے مزار قائد پر کرنی تھی اور جو میری زندگی کی سب سے اہم تقریر تھی۔

ایک نکتے پر بحث کے دوران میں نے کہا کہ ہمیں اس تقریر میں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اس پیٹیشن کا ذکر بھی کرنا چاہیے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کا موقعہ دیا جائے تاکہ انتہا پسندوں کا سیاسی سطح پر مقابلہ کیا جا سکے۔

ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ ایک زوردار دھماکے سے ٹرک لرز گیا۔ پہلے دھماکے کی آواز، پھر روشنی کا فلیش، پھر شیشے ٹوٹنے کی آواز اور اس کے بعد موت کی خاموشی۔ ذرا دیر کے بعد چیخ و پکار شروع ہوئی، اور میں نے دل میں کہا’ اوہ میرے خدا یہ نہیں ہو سکتا۔

ابھی میرے کان اس دھماکے کی شدت سے بج رہے تھے کہ دوسرا اور زیادہ زور دار دھماکہ ہوا۔عین اسی وقت کوئی چیز ٹرک سے ٹکرائی اور یوں محسوس ہوتا تھا وہ چیز ٹرک کی باڈی کے ساتھ گھوم رہی ہے۔ بعد میں میں نے ٹرک کے بائیں جانب، جہاں میرا کمرہ تھا، باڈی پر ٹکراؤ کے دو نشان دیکھے۔

میں نے باہر دیکھا تو اندھیری رات نارنجی روشنی میں نہائی ہوئی تھی اور سڑک پر لاشیں بکھری پڑی تھیں۔

اب میں جان گئی ہوں کہ پیپلز پارٹی کے رنگوں والے کپڑے پہنے بچے کے ساتھ کیا ہوا۔ پارٹی کے ایک پارلیمانی رکن آغا سراج درانی میرے ٹرک کے آگے راستہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب مشکوک آدمی نے بچہ ٹرک کے اوپر پہنچانا چاہا تو انہوں نے اسے منع کر کے وہاں سے چلتا کیا۔ اس پر وہ شخص بچے کو لیے ٹرک کے بائیں جانب چلنے والی ایک پولیس گاڑی کی طرف گیا جس میں موجود افراد نے بھی بچے کو لینے سے انکار کر دیا۔ اس سے آگے والی پولیس وین میں پارٹی کی ایک کونسلر رخسانہ فیصل بلوچ اور ایک کیمرہ مین بھی سوار تھے۔

جب وہ آدمی اس وین کے قریب آیا تو پچھلی پولیس گاڑی والوں نےخبردار کیا کہ ’بچے کو مت لینا، بچے کو مت لینا، بچے کو ٹرک کے اندر مت جانے دینا۔

یہ دونوں پولیس گاڑیاں ٹرک کے متوازی اسی جانب چل رہی تھیں جس طرف ٹرک کے اندر میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جب پولیس والے اس مشکوک آدمی کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی وقت پہلا دھماکہ ہوا۔ دوسری پولیس وین میں سوار تمام افراد مارے گئے۔

ایک منٹ سے بھی کم وقفے سے 15 کلوگرام کے ایک کار بم کا دھماکہ کیا گیا اور عینی شاہدین کے مطابق اس کے ساتھ ہی سنائپرز یا ماہر نشانچیوں کو فائرنگ کرتے بھی دیکھا گیا۔

بشکریہ بی بی سی