jump to navigation

Talib Bukhari حقائق کے متلاشی نیناں

 

حقائق کے متلاشی نیناں

از طالب بخاری

 

زندگی ایک حقیقتِ غیر فانی ہے، یہ صرف وہی اہلِ دانش اور ا ہلِ بصارت سمجھ پاتے ہیں جو حیات کی روح اور اس کے فلسفہ سے آشنا ہیں، زندگی کبھی فنا نہیں ہوتی، اللہ تعالی نے قرآنَ مجید فرقانَ حمید میں شہداء کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے”جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہوبلکہ وہ تو زندہ ہیں اور تمہیں اس بات کا شعور نہیں ہے“ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ در حقیقت حیات غیر فانی ہے،اس کی بقاء کا ادراک اور تسلسل کا شعور نصیب ہوجائے تو صاحب ادراک و شعور خود بھی لافانی بن جاتا ہے، منزلِ لافانیت کی تمنا دل میں بسانے اور منزلِ بقا کے حصول کے لیئے سعی و عمل کے چند مدارج اور لوازمات ہیں جو یہاں ضرورتِ اختصار کے پیشِ نظر زیرِ بحث نہیں ہیں۔

شاعری محض مصرعہ بندی اور حصولِ داد و ستائش کی تمنا کا نام نہیں،بامقصد شاعری انقلاب آفریں بھی ہو سکتی ہے اور کسی افسردہ قاری کے لیئے راحت آفرین بھی، دنیائے اردو شاعری پر صدیوں تک مردوں کی حکمرانی رہی، اکا دکا شاعرات کبھی چمنستانِ شاعری میں دکھائی دیتی رہیں اور اب شعراء و شاعرات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہونے لگا ہے اگر صرف شاعرات کا تذکرہ کیا جائے تو فنَ شاعری میں پختگی اور شہرت کی حامل خواتین کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔

ان شاعرات میں فرزانہ نیناؔں بھی شامل ہیں جو زندگی کی حقیقتوں کی متلاشی دکھائی دیتی ہیں،وہ اپنی زمین اور طرزِ بودوباش کی خوشبوئیں اپنے ساتھ رکھے ہوئے محوِ سفر ہیں:

اک  وراثت کی  طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں

گٹھڑیاں باندھ کے اس دل کے نگر آتی ہیں

نیناؔں کی شاعری میں جدید رنگ و آہنگ اور تمناؤں کا بے ساختہ پن دکھائی دیتا ہے:

روح میں گیت اُتر جاتے ہیں جیسے خوشبو

گنگناتی  سی کوئی  شام  مجھے  بھیجو   نا

یہ شاعری کا بیحد خوبصورت اور لطیف انداز ہے، شاعرہ گیتوں کی خوشبو کے وسیلے سے روح کو طمانیت کی تازگی فراہم کرنے کی تمنائی ہے اور وہ کسی ہمدم و مونس سے ایک گیتوں بھری رنگین شام بھرپور تمنا کے ساتھ کرتی دکھائی دیتی ہے ”نا“ لفظ کا استعمال اس تمنا کی شدت کی نمائندگی کرتا سنائی دیتا ہے۔

 فرزانہ نیناں ؔ جن منازل کو طے کر رہی ہیں اور جن رفعتوں پر ان کی نگاہ ہے وہ ایک دن یقیناََ ان کی زندگی میں اپنا کردار ادا کریں گی،نیناں کو قدرتی نظاروں، اجسام اور احساسات کا پختہ شعور ہے، چاہے وہ گلہ کرے یا تقابلی جائزہ پیش کرے، وہ مسلمات کو اپنے الفاظ کے تانے بانے سے شعروں کا روپ دینے پر دسترس رکھتی ہے:

مرے  خیال  کے بر عکس  وہ  بھی کیسا  ہے

میں چھاؤں چھاؤں سی لڑکی وہ دھوپ جیسا ہے

نیناؔں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی فکر میں غرق اس پر عمل بھی کرتی نظر آتی ہیں، ان کی زندگی میں اعتماد کی روشنی آرزوؤں کی تشنگی کو پورا کرتی ہوئی جلوہ فگن دکھائی دیتی ہے،کاوشِ شبانہ و روزانہ ان کا طرز عمل اور سعیئ بالیقیں ان کا عزمِ صمیم ہے، مجھے ان کی ادبی محفل میں شریک ہوتے ہوئے اوران کے ساتھ ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شامل ہوکر ان کی کشادہ دلی اور خلوصِ نیت کی مہک نصیب ہوئی ہے جو حقیقی شاعری کے حسن کو چار چاند لگانے میں ممدود و معاون ثابت ہوتی ہے۔