jump to navigation

Around the world in 80 Gardens February 17, 2008

Posted by Farzana Naina in Feelings, Photography, Thoughts.
Tags: , , , , , , ,
add a comment

Photobucket

اف۔۔۔۔۔۔۔ میں اور میرے اندر کی لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے عاجز کردیا ہے،

ابھی ابھی پھر سے جنگ شروع ہوگئی ہے اور اس کی وجہ ٹی وی پر دکھایا

جانے والا ایک پروگرام ہے

“اراؤنڈ دی ورلڈ ان ایٹی گارڈنز”

میں ٹہری حسن پرست، نیچر پرست ،

پروگرام میں انڈیا کے بہت سے خوبصورت و حسین گارڈن دکھا رہے ہیں، تاج محل کے ارد گرد کے باغات، مور، ہرن، طوطے، آبشاریں،  اکدم سے نجانے کیا کیا یاد آرہا ہے اوپر سے وہ پھول نظر آ رہے ہیں جو پاکستان میں بھی ہوتے تھے جو میں بچپن میں اپنے ابو سے چھپ کرتوڑلیتی تھی یا کبھی کبھی اسکول سے آتے جاتے دوسروں کے باغ سے بھی چوری سے توڑ کر بہت خوش ہوتی، بچپن کیسا معصوم، بھولا بھالا ۔۔۔۔۔۔۔ کتنا اچھا ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔!۔

وہ گلیاں۔۔۔۔ وہ لوگ۔۔۔۔ وہ محبتیں چھوٹے ایک زمانہ بیت گیا یا یہ سمجھوں کہ ان کو چھڑوادیا گیا، میں نہیں بچھڑی تھی، مجھے ہجر اور جدائی میری مرضی کے بغیر بخشی گئی، مسلسل ہجر، کبھی نا ختم ہونے والا، اب تو زندگی بھی جارہی ہے، یہ یادیں  یہ باتیں یہ پھول یہ پودے، ان کی ایک جھلک نجانے کیا کچھ دکھارہی ہے، انہیں کیا پتہ جو ان کے پاس ہیں ایک دوسرے  کے ساتھ ہیں۔۔۔۔۔

انہیں کیا پتہ کہ ایک پاگل لڑکی ابھی تک ان گلیوں میں دوڑتی بھاگتی ہے، چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتی ہے، چپکے سے کوئی پھول چوری کر کے کتنا خوش ہوتی ہے، اس کی خوشبو سے ، بار بار مسحور ہوتی ہے، اپنی چوری کا لطف اٹھاتی ہے، ، اس کے رنگوں کو دیکھ کر خود بھی ان میں گھل جاتی ہے۔۔۔۔۔

انہیں کیا پتہ کہ جس مٹی سے خمیر اٹھتا ہے اس کی سوندھی مہک کیسے کیسے آنسوؤں میں بھگوتی ہے۔۔۔۔

مجھے اپنے ابو یاد آگئے ہیں، ان کو گارڈننگ کا بہت شوق تھا، ہمارے محلے میں سب سے اچھا گارڈن ہمارا ہی تھا، ابو خود گارڈننگ کرتے تھے،شاید ان کا خمیر ہے جو مجھے بھی پھول پودے بہت لبھاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے رنگین پودے، پنکھڑیاں،کلیاں، ان کی تروتازہ خوشبو،ایک سیکنڈ ایک پل کہاں سے لے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

۔اس وقت، ابھی بھی جو میرے ارد گرد ہیں انہیں کیا پتہ میں کیا محسوس کر رہی ہوں، کہاں لے گیا مجھے یہ ایک منظر، انہیں کیا پتہ کہ محرومیاں اندر ہی اندر کیسی ٹیسیں اٹھاتی ہیں، کتنی کسک بھر دیتی ہیں۔۔۔

کہتے ہیں کہ انسانی دماغ سے زیادہ بڑا کوئی سٹوریج سسٹم نہیں، پل بھر میں آپ کو وہاں لے جاتا ہے جہاں سے آپ کو یہاں تک آنے میں کتنے برس لگتے ہیں، ، جو بھی ہے بہت تکلیف دہ ہے کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ کچھ یاد نہ رہے، کوئی بھی یاد نہ آئے، ذہن کا اسکرین کسی طرح  وائیپ آف ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں کیا پتہ جنہوں نے ایک چھوٹی سی لڑکی کو وطن سے جدا کر کے سب سے دور بھیج دیا،انہوں نے تو اپنے سر کے بوجھ  کو اتاردیا لیکن اس کے سر میں۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے ابھی سپنے بننا شروع کیئے تھے۔۔۔۔کون سا بار ڈال دیا۔۔۔۔۔۔

اب وہ لڑکی انہیں گلیوں اسی مٹی کی خوشبو میں گھل کر ختم ہوجاتی ہے، پھر دوبارہ ا پنے آپ کو ڈھونڈتی ہے اور گوندھ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔بار بار نئی نئی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔

لیکن بار بار کا یہ جو عمل ہوتا ہے تو بے انتہا تکلیف دہ بن جاتا ہے۔۔۔۔۔

کہاں گئے وہ سب، کیوں چلے گئے ؟ کس پاتال میں رہتے ہیں

،ان کے دل، ان کے ذہن کس چیز کے بنے ہوئے ہیں؟؟؟

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم کسی کو سب کچھ نہیں دکھاتے،  سچ نہیں بتاتے ، کوئی نہ کوئی مصلحت، کوئی نہ کوئی احتیاط، کہیں نہ کہیں جھوٹی انا، ہم نے دکھاوے کے کردار بنائے ہوئے ہیں، نجانے کیوں؟؟؟

حالانکہ یہ چھوٹی چھوٹی معصوم باتیں ہوتی ہیں، ننھی ننھی خوشیاں،  ان کہی سی، ادھوری سی خواہشیں  جن میں بچپنا اور معصومیت ہے۔۔۔۔۔۔۔

نجانے ہم اتنے بڑے دیو میں کیسے ڈھل جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک بونے کی طرح قدموں میں پڑا اک نظر عنایت کے لیئے ترس رہا ہوتا ہے لیکن ہمیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔۔۔۔

انسان ۔۔۔۔۔۔۔کبھی نا سلجھنے والی گتھیوں کی طرح الجھا الجھا انسان،کس پر کھلے گا؟ کب کھلے گا ؟؟؟

Photobucket

My Father’s Favourite Song-میرے ابو کا پسندیدہ گیت