Mere qareeb hiمرے قریب ہی۔ March 25, 2008
Posted by Farzana Naina in Farzana, Ghazal, Kavita, Naina, Pakistani, Pakistani Poetess, Poetess, Poetry, Shairy, Sher, Urdu.Tags: Ghazal, Kavita, Poetry, Shairy, Urdu
4 comments
Ghazwa-e-Badar was fought HERE March 20, 2008
Posted by Farzana Naina in Religion.Tags: Ghazwa-e-Badar, Islam
4 comments
On 17th Ramadan Year 2nd of Hejra, Prophet Mohammad (PBUH) came to BADER from MADINA
With around 300 of his Followers from the way shows in picture (Red Arrow).
Right Arrow Shows (Al Odoat Al Dunea) and on versant of it Muslims Camp, Middle Arrow Shows
the way which ABO SOFEAN Convoy pass all the way through and Left Arrow Shows Malaeka mountain
(where JEBREAL and MEKAEAL sent By ALLAH with 1000 Of Malaeka to help Muslims Army against Unbelievers.
The names of the 14 martyr from the Followers of Prophet Mohammad where killed on BADER CONQUEST,
Malaeka Mountain
Right Arrow Shows (Al Odoat Al Dunea) and on versant of it Muslims Camp, Middle Arrow Shows
the way which ABO SOFEAN Convoy pass all the way through and Left Arrow Shows Malaeka mountain
The Arrow Shows the Moshreken (Unbelievers) Base Camp called in Quran as (Al Odoat Al Qoswa) and there army were 950 men.
This is where Muslims Army moved to where BADER WELL was at the back of them
A different picture angle of (Al Odoat Al Dunea) and Malaeka Mountain and the new camp area where Muslims moved to.
ALARESH MASJID was built in the place where Prophet Mohammad (PBUH) built a Hut as suggested by SAAD BIN MOAD.
ALARESH MASJID from inside
Soch Nagar March 19, 2008
Posted by Farzana Naina in Feelings.Tags: Emmotions, Feelings, Khayal, Soch, Thoughts
add a comment
کبھی کبھی ،کوئی دعا ۔۔۔۔۔ ایسی کیوں ہوتی ہے جسے آپ کے سوا کوئی نہیں مانگ سکتا؟
پتہ نہیں کیوں کبھی کبھی اپنے آپ سے ملاقات کے لیئے اپنی ہی دعاؤں پر انحصار کرنا
پڑتا ہے؟
ایک چھوٹی سی بات کے لئے ساری عمر قبولیت کی گھڑی کا انتظار کرنا بہت
کٹھن ہوتا ہے …..جس دروازے پر دستک دی جائے…. وہ صرف اسی کے لیئے کھلے …. اسی
کے لئے مخصوص ہو …. شارع عام تو ہرکسی کے لیئے موجود ہے …. جس کا جی چاہے اٹھ
کر چل پڑے ….. مخصوص اور منفرد ہونا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے …. کاش ہم تم بھی اجنبی
ہوتے جس طرح اور لوگ ہوتے ہیں بے تعلق سے ۔۔۔۔۔۔۔ بے تعارف سے ۔۔۔۔۔۔۔ بے قراری نہ بے
کلی ہوتی نا مکمل نہ زندگی ہوتی یوں نہ ہوتیں اذیتیں دل کی زندگی بھی نہ ہوتی مشکل
میں آنسوؤں سے نہ دوستی کرتے اپنے دل سے نہ دشمنی کرتے کیسا دھوپ چھاؤں کا
موسم ہے آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں آفتاب بن کر کوئی جگمگا رہا ہے کہیں ماہتاب نیلگوں اداسی
میں…….ڈوبتا جا رہا ہے کیسا عجیب دن ہے۔۔۔۔۔۔ کتنا کچھ کرنے کو ہے لیکن پھر بھی لگ
رہا ہے کہ کچھ بھی نہیں…. کیسا عجیب موسم ہے؟
*** اجنبی شہر ہے اجنبی شام ہے
جان من
Baaz auqaat insaan bohut ghabrata hai,
bohut pachta’ta hai…..
mein bhi aap hi apni baton se tang aa jati hon,
aakhir meine kisi ko aisa kya kaha ya keh diya ke wo aisi mushkil or takleefdah kaifiaat mein mubtila ho jata hai…………..
Phir achanak mere saamne chaand nikal aata hai,
mein usey dekhne lagti hon,
wo sada se mera saathi hai, mere dil ki dunya mein jhaankta hai, meri baatein sunta hai………… mein dunya se ghabra ker bhaag jaati hon, uski panah mein,
wo mujhe sukoon bhi deta hai or be’chain bhi kerta hai……….
mohabbat ki khoobsurtiyoon mein gum bhi kar deta hai………
par mein hi ghabra jaati hon naa…………mohabbaton se chuphti hon,
kinara’ kashi ikhtiyaar ker leti hon…….
haalanke mujhe maloom hai……k ye…………komal hai,
nirmal hai or mukammal bhi hai………….
kisi haseen deis mein mujhe le jaye gi…….
.jahan dil ki shakl ke khoobsurat sar’sabz pattay khiley hongay….
jahan jazbon ki gulabiyaan phoolon ki tarah perron par khil jayein gi…….
barish hogi tau sufaid motiye ke kaliyon ki tarah tapkey gi………lekin ……
mujhe ye bhi khaber hai ke jab suraj in manazir ki taab na laa ker jalne lagey ga…….
tab ye sab kuch ……….
zard patton mein tabdeel ho ker ik dheir ban jaaye ga……..
or sookhey patton ke dheir mein………………
hamesha aag hi lagai jati hai !!!!!!!
========= ========
خیالوں، خوابوں اور نیندوں پر ہمیشہ کسی روشنی کا راج رہا ہے ، جب دن دھیرے دھیرے اندھیرا بن جاتا ہے تب اس تاریکی میں میری آس میری امیدیں روشنی بن جاتی ہیں، رات کسی لڑکی کی طرح اس تیرگی میں دیپک جلاتی ہے ستاروں کے دیپک، ننھے ننھے سے چراغ جن کے بیچ چاند کی مشعل جلتی ہے، وہ چمکتا رہتا ہے کبھی ادھورا تو کبھی پورا ۔۔۔
کبھی جلتا ہے تو کبھی بجھتا ہے اور رات، رات اسی لڑکی کی طرح اپنی پلکیں گراتی اور اٹھاتی رہتی ہے جو کبھی شور تو کبھی خاموشی، کبھی آہٹ تو کبھی سرگوشی سے اپنے آپ ہی بہل جاےٗ، رنگوں اور راگنیوں سے دکھوں کی دھوپ پر چادر تان لیتی ہو، اس کا وجود جذبہٗ پرستش کو گھولتا اور دل کو برف کے سرد گالوں سے بچا کر نرم گرم حرارت سے پر کردیتا ہو۔
Lev Nikolaevich Tolstoy – لیو ٹالسٹائی March 13, 2008
Posted by Farzana Naina in English Literature, Leo Tolstoy, Literature, World.Tags: Leo Tolstoy, Lev Nikolaevich Tolstoy, لیو ٹالسٹائی
2 comments
حالاتِ زندگی
لیو تولستوئی 9 ستمبر 1828ء کو روس کی ریاست تُلّا میں یسنایا کے جاگیردار کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے لہٰذا وہ اور اُن کے بہن بھائی مختلف رشتہ داروں کے ہاں پرورش پاتے رہے۔ بچپن میں فرانسیسی اور جرمن استادوں سے تعلیم حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے کازان یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا لیکن اُن کے اساتذہ انہیں نالائق طالب علم خیال کرتے تھے، ساتھی طلٍبا اور اساتذہ کے منفی رویے کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آبائی قصبے یسنایا لوٹ آئے۔ کئی سال تک ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ میں لوگوں کی سماجی زندگی کا مطالعہ اورکسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔1851ء میں فوج میں شامل ہوکر ترکو ں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی وہ فوجی زندگی سے اکتا گئے اور سینٹ پیٹرزبرگ آ گئے۔ آپ نے پہلا ناول 1856ء میں “بچپن” کے نام سے لکھا لیکن آپ کی شہرت اس وقت پھیلی جب اس نے جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں سیواتوپول کی کہانیاں لکھیں۔ پھر مغربی یورپ کی طویل سیاحت کی، بعد میں اپنی جاگیر پر واپس آئے کسانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے۔ اس دوران اس نے اپنا زندہ جاوید امن اور جنگ اور اینا کرینینا لکھ کر بے پناہ شہرت حاصل کی۔
1876ء کے بعد سے روسی کلیساکے جمود زدہ نظریات کے خلاف خیالات آپ کے ذہن میں چھائے رہے اور آپ نے مسیحیت کی نشاۃ ثانیہ کا اپنا نظر یہ وضع کیا اور انسانی محبت، سکون اور اطمینان قلب اور عدم تشدد کو اپنا مسلک قرار دیا، ساتھ ہی ایک اعتراف کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنے نظریات کو پیش کیا اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کیا، انسان سے انسان کے جبرو استحصال کی شدت سے مذمت کی۔ وہ زبان اور قلم سے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی تلقین کرنے لگے۔ آپ کے انقلابی خیالات روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگے لوگوں پر آپ کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ روس کی حکومت کو آپ کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپ اپنے نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن خاندان کے افراد اس کے مخالف تھے، لہٰذا دل گرفتہ ہو کر گھر چھوڑ دیا اور اپنے حصے کی ساری جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کر دی، زندگی کے آخری لمحوں تک تن کے دو کپڑوں کے علاوہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ آخر کار 20 نومبر 1910ء کو ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے تھے کہ مسیحی دنیا میں پاکیزہ زندگی، روحانیت، ترک و تجرید، درویشی و ایثار کے اعتبار سے آپ جیسی مثال مشکل سے ملے گی۔
خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں
آیوان اکسیونوف ، ولاڈیمر نام کے ایک شہر کا سوداگر تھا۔ اس کے پاس دو دکانیں اور ایک گھر تھا۔ اکسیونوف بے حد خوبصورت اور گانے کا شوق رکھنے والا تھا۔ اپنی جوانی کی شروعات سے ہی اس نے شراب پینا شروع کر دی تھی اور آدھی جوانی ہوتے ہوتے اس میں برباد ہونا شروع ہو گیا تھا ، مگر شادی ہونے کے بعد اس نے اپنی شراب پینے کی لت کو کم کیا،اورپھرصرف کبھی کبھی پیا کرتا تھا۔ ایک بارحسب معمول جب وہ گرمیوں میں اپنے گھر کو چھوڑ کے نزھنی میلے میں کام کے سلسلے سے جا رہا تھا تو اس کی بیوی نے اس سے کہا۔
“آیوان،آج مت جاو، میں نے تمہارے بارے میں ایک برا خواب دیکھا ہے۔”
“ہا ہا ، تمہیں کہیں اس بات کا ڈر تو نہیں لگ رہا کہ میں میلے میں جا کر رنگ رلیاں مناؤںگا۔” اکسیونوف نے کہا اور ہنسنے لگا۔
“مجھے نہیں پتا کہ میں نے جو برا خواب دیکھا ہے اس سے مجھے کیوں ڈر لگ رہا ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ میں اس سے ڈر رہی ہوں یا کسی اور ڈر سے ۔ مجھے جو پتا ہے وہ یہ کہ میں نے دیکھا کہ تم نے جب واپس آکر اپنی ٹوپی اتاری تو تمہارے بال سفید ہو چکے تھے”
“وہ ایک اچھا خواب تھا ۔ دیکھنا میں ضرور جب واپس آؤں گا تو کتنے تحفے لاؤں گا”اکسیونوف نے ہنس کر کہا۔
اور پھر اس نے اپنے گھر والوں کو الوداع کہا اور اپنے سفر پر چل پڑا۔ اپنا آدھا سفر پورا کرنے کے بعد اس کی راستے میں ایک اور سوداگر سے ملاقات ہوئی جو اس کا پرانا جاننے والا تھا۔ انہوں نے ایک ہی سرائے میں کمرے لیے ، شام کی چاے ساتھ میں پی اور پھر اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔ اکسونوف رات میں کافی جلدی ہی سو گیا تھا اس لئے اس کی آنکھ صبح طلوع فجر کے وقت ہی کھل گئی تھی۔ اس نے اپنے گاڑی ہانکنے والے کو اٹھا کر گھوڑوں کو گاڑی سے ملانے کو کہا۔ اس کے بعد وہ سرائے کے مالک کے پاس گیااور اپنا کرایہ چکتا کر کےاس نے پھر سے اپنا سفر شروع کر دیا۔
تقریباً پچیس میل کا سفر طے کرنے کے بعد گاڑی ہانکنے والے نے گھوڑوں کو چرانے کے لئے گاڑی کو روک دیا۔ چونکہ گاڑی ایک سرائے کے پاس رکی تھی اس لئے ، اکسیونوف کو آرام کرنے میں پریشانی نہیں ہوئی ، اس نے کچھ دیر سرائے کے ہال میں بیٹھ کر آرام کیا اور پھر باہر پورچ میں نکل کر چائے کا آرڈر دیا اور ایک پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اپنا گٹار نکالا اور اس کی دھن پر گنگنانے لگا۔ٍاچانک ، ایک گاڑی جسے تین گھوڑے کھینچ رہے تھے وہاں آکر رکی اور اس میں سے دو آفیسر نکل کر اکسیونوف کی طرف بڑھے۔ انہوں نے اس کی طرف پہنچ کر اس سے پوچھ تاچھ کرنا شروع کی، جیسے کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟اکسیونوف نے ہر سوال کا جواب پورے سلیقے سے دیا اور پھر ان سے پوچھا۔
“کیا آپ میرے ساتھ چائے پینا پسند کریں گے”
اکسیونوف کے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے ان دو آفیسروں نے اس سے الٹے سوال کرنا شروع کر دیے۔ جیسے کہ تم نے کل کی رات کہاں گزاری ؟ کیا تم اکیلے تھےیا پھر کسی سوداگر کے ساتھ تھے؟کیا تم نے اس کو آج صبح دیکھاتھا؟ تم صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے کیوں نکل آئے؟
اکسیونوف ان سوالوں کو سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ اس سے اس طرح کے سوالات کن وجوہات کی بنا پر کئے جا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی اس نے ہر ایک سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا اور پھر کہنے لگا۔
“آپ دونوں مجھ سے ایسے سوالات کیوں کر رہے ہیں جو کسی چور یا ڈاکو سے کئے جاتے ہیں۔ میں اپنے کام کے سلسلے میں یہاں سے گزر رہا ہوں اور مجھ یہ سوالات کرنے کا کیا تک بنتا ہے؟”
“میں اس علاقہ کا پولیس آفیسر ہوں اور میں تم سے یہ سب سوالات اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ جس سوداگر کے ساتھ تم نے پچھلی رات گزاری تھی ، اس کی لاش آج صبح اس سرائے سے برامد ہوئی ہے۔ اس کا قتل گلا کاٹ کے کیا گیا ہے ۔ ہمیں تمہارےسامان کی تلاشی لینی ہوگی۔”ان میں سے ایک آفیسر نے یہ کہنے کے بعد دوسرے افسر سے تلاشی لینے کو کہا ۔ ایک آفیسر اپنے دوسرے آئے ہوئے ساتھیوں کو لے کر سرائے میں داخل ہوا۔ان لوگوں نے اکسیونوف کا بیگ کھولا اور اس کی تلاشی لینی شروع کردی۔ اچانک ایک آفیسر نے اس بیگ میں سے ایک چاقو نکالا اور چلا کر بولا۔ “یہ کس کا چاقوہے؟”
اکسیونوف کی نظریں جب اس چاقو پر پڑی جس پر خون لگا ہوا تھا، تو اس کے حواس اڑگئے۔
“ایسا کیسے ہوا؟ اس چاقو پر خون کیسے لگا؟”
اکسیونوف نے جواب دینے کی کوشش کی مگر اس کہ منہ سے سوائے اس کے ایک لفظ بھی اور نہ نکلا کہ “مجھے نہیں معلوم”
“آج صبح اس سوداگر کی لاش برامد ہوئی جس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ ایک تم ہی ہو جس نے یہ کیا ہوگا۔کمرا اندر سے بند تھا اور وہاں کوئی نہیں تھا۔یہ رہا وہ خون سے لت پت چاقو اور تمہارا چہرا صاف صاف بتا رہا ہے کہ یہ خون کس نے کیا ہے۔بتائو مجھے کہ تم نے اسے کیسے مارا ؟کتنا پیسہ لوٹ کربھاگ رہے تھے تم؟”اس پولیس آفیسر نے اکسیونوف سے کہا جو اس کے پاس کھڑا تھا۔
اکسیونوف نے قسم کھائی کہ اس نے کچھ نہیں کیا ہے، اس نے چائے پینے کے بعد سے اس سوداگر کو دیکھا تک نہیں تھا،اس کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا سوائے اپنے آٹھ ہزار روبل کے، اور یہ کہ چاقو اس کا نہیں ہے۔ مگر اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی، اس کا چہرا پیلا پڑ گیا تھا، اور وہ خوف سے اس بری طرح کانپ رہا تھا جیسے کہ وہ گنہگار ہو۔ اس پولیس آفیسر نے دوسرے چھوٹے آفیسروں کو یہ حکم دیا کہ وہ اکسیونوف کو باندھ کر گاڑی میں بٹھائیں۔ جیسے ہی ان لوگوں نے اکسیونوف کو گاڑی میں باندھ کر رکھا ، اس کے آنسوگرنے لگے۔ اس سے اس کا سارا سامان اور پیسہ ضبط کر لیا گیا اور اسے پاس کے شہر کی جیل بھیج دیا گیا۔ اس کی ساری جانچ پڑتال ولاڈیمر میں ہی ہوئی تھی۔ جانچ کے دوران دوسرے سوداگروں نے یہ بتایا کہ وہ خالی وقت میں شراب پیتا تھا مگر پھر بھی وہ ایک اچھا آدمی تھا۔لیکن تمام شواہد کی روشنی میں عدالت نے اس پر یہ جرم پکا کردیا کہ اس نے ریازن کے ایک سوداگر کا قتل کیا اور اس کے بیس ہزار روبل لوٹ لیئے۔ اس کی بیوی دکھی ہو گئی اور اس کو با لکل سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس پر یقین کرے۔ اس کے بچے کافی چھوٹے تھے، ایک تو ابھی ماں کے دودھ پر ہی بڑھ رہا تھا۔ ان سب کو اپنے ساتھ لے کر اس کی بیوی اس جیل میں گئی جہاں اکسیونوف قیدی تھا۔ پہلے اسے ملنے کی اجازت نہیں ملی مگر بہت گڑگڑانے کے بعد اسے اجازت مل گئی ۔ اس کی نظریں جب اپنے شوہر پر پڑیں ، جو کہ ہتکڑی میں قید چور اچکوں کے ساتھ کھڑا تھا ، وہ وہیں زمین پر گر گئی اور کافی دیر تک ہوش میں نہ آسکی۔ پھر اس نے اپنے بچوں کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے پاس ہوکر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے گھر کے بارے میں بتایا اور پھر اس سے ان سب حالات کی وجہ پوچھنے لگی۔اس نے سب بتا دیا۔ اس کے بعد وہ بولی۔
“اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟”
“ہمیں زار کے پاس جانا پڑے گا اور ان کے سامنے ایک معصوم آدمی کی زندگی بچانے کی عرضی پیش کرنی پڑیگی”
اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ اس نے زار کے سامنے عرضی پیش کردی تھی مگر وہ قبول نہیں کی گئی۔ اکسیونوف نے بنا کچھ کہے ، اپنی آنکھیں مایوسی سے زمین میں گاڑ لیں۔
“وہ سب کچھ بالکل غلط نہیں تھا جو میں نے تمہارے بارے میں خواب میں دیکھا تھا۔ تمیں یا د ہے؟ تمہیں اس دن باہر نہیں نکلنا چاہیئے تھا۔ “اپنی انگلیاں اس کے بالوں میں سے نکالتے ہوئے اس کی بیوی نے کہا۔ “وانیا میرے پیارے، مجھے سچ بتائو، کیا وہ تم نہیں تھے جس نے یہ سب کیا ہے؟”
“تو اب تم بھی مجھ پر شک کر رہی ہو”اکسیونوف نے کہا اور اپنا چہرا اپنے ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگا۔ تبھی ایک سنتری آیا اور کہنے لگا کہ اب تمہارے بیوی بچوں کو جانا ہوگا، اور اکسیونوف نے آخری بار اپنے بیوی بچوں کو الوداع کر دیا۔ جب سب جا چکے تو اپنے آپ کو اکیلا پا کر اکسیونوف نے اپنی بیوی کا خواب اور اس پر شک کر نا یاد کیا اور یہ کہہ کر رونے لگا کہ “اب تو ایسا لگتا ہے کہ بس خدا ہی سچ جانتا ہے، اب بس ایک وہ ہی ہے جس سے میں درخواست کر سکتا ہوں، جسے عرضی دے سکتا ہوںاور ایک اسی سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہوں۔”
اس کے بعد اکسیونوف نے نہ تو کوئی عرضی لکھی اور نہ ہی کوئی امید رکھی۔ اس نے اپنا سارا وقت خدا کی عبادت کے نام کر دیا۔ اس کے بعد اکسیونوف کو کوڑے پڑوانے بھیجا گیا۔ اس کو ایسے کوڑھوں سے مارا گیا جو موت کے بھی باعث بن سکتے تھے۔ جب کوڑھوں کے زخم بھر گئے تو اس کو سایبیریا بھیج دیا گیا۔چھبیس سال تک اکسیونوف سایبیریا میں ایک مجرم کی طرح رہا۔ اس کے بال برف کی طرح سفید ہو گئے اور اس کی ڈارھی لمبی ، پتلی اور زیادہ سفید ہو گئی۔ اس کی ساری خوشی مر چکی تھی ، وہ خمیدہ کمر ہوگیا تھا، اس کے چلنے کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی ، وہ کم بولنے لگا تھا، اس کی ہنسی غائب ہو چکی تھی، مگر وہ اب بھی عبادت کر تا تھا۔ جیل میں اکسیونوف نے جوتے بنانا سیکھا اور یہی کر کے اس نے کچھ پیسے بھی کمائے جس ایک کتاب خریدی جس کا نام تھا “ولیوں کی زندگیاں” وہ یہ کتاب جیل میں اس وقت پڑھتا تھا جب وہاں زیادہ روشنی ہوا کرتی تھی ۔ اتوار کے دن وہ اس کتاب کو چرچ کے اندر بلند آواز میں پڑھتا بھی تھا اورمڈہبی گیت بھی گاتا تھا کیونکہ اس کی آواز ابھی تک اچھی تھی۔جیل کے ادھیکاری اکسیونوف کو اس کی نیکی کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور دوسرے قیدری اس کی بہت عزت کرتے تھے:وہ اس کو “بابا” اور “دادا” کہہ کر پکارتے تھے۔ جب بھی کسی قیدی کو اپنی عرضی جیل ادھیکاریوں کے سامنے پیش کرنی ہوتی تھی تووہ اکسیونوف کو ہی اپنا نمائندہ بناتے تھے، اور اگر کبھی کوئی جھگڑا ہوتا تھا تو وہ اسی کے پاس انصاف اور صحیح فیصلے کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ اکسیونوف کو اپنے گھر کی ذرا بھی خبر نہیں تھی، اس کو تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ اس کے بیوی بچے زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔
ایک دن جیل میں قیدیوں کا ایک نیا گروہ لایا گیا۔ شام میں سارے پرانے قیدیوں نے نئے قیدیوں سے ان کے گاؤں اور ان کی سراؤں کے بارے میں پوچھ تاچھ کی ۔ سب چیزیں چھوڑ کر اکسیونوف ان نئے قیدیوں کی پوچھ تاچھ کے دوران زمین پر بیٹھ کر نیچےسر کئے ان کے ہر ایک لفظ کو غور سے سن رہا تھا ۔ ان نئے قیدیوں میں سے ایک جو تقریباَ ساٹھ سال کا رہا ہوگا ، لمبا ، چوڑا ، اپنے گرفتار ہونے کی وجہ بتا رہا تھا ۔
“دوستو!”اس نے کہا”میں نے بس ایک گھوڑا ، جو کہ ایک گاڑی سے باندھ لیا تو مجھ پر چوری کا الزام لگا دیا گیا ۔ میں نے کہا بھی کہ میں نے ایسا صرف گھر جلدی پہنچنے کے لئے لیا تھا اور اس کے بعد میں اس کو جانے دیتا۔ جبکہ گاڑی ہانکنے والا میرا بہت اچھا دوست تھا۔ تو جب میں نے ان سے کہا کہ ‘مجھے جانے دیجیے ‘ تو انہوں نے کہا کہ ‘نہیں ، تم نے اسے چرایا ہے ‘ مگر وہ یہ نہیں بتا سکے کہ میں نے اسے کب اور کہاں سے چرایا ہے ۔ میں نے ایک بار سچ میں ایک غلط کام کیا تھا ، اور یہاں آنے والا تھا لیکن میں نہیں پکڑا گیا ۔ اب مجھے یہاں بھیجا گیا ہے جبکہ میں نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔مگر یہ سب جھوٹ ہے ، میں سائبیریا پہلے بھی آچکا ہوں مگر کبھی بہت نہیں رکا۔ “
“تم کہاں سے ہو” کسی نے پوچھا۔
“ولاڈیمر ۔ میرے گھر والے وہاں کے ہیں ۔ میرا نام مکر ہے اور دوسرے لوگ مجھے سیمیونچ بھی کہتے ہیں”
اکسیونوف نے اپنا سر اٹھا یا اور بولا ” سیمیونچ کیا تم مجھے کچھ ولاڈیمرکےاس سوداگر اکسیونوف کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہو ؟ کیا وہ اب بھی زندہ ہے ؟”
“بتا سکتے ہو ؟ بالکل بتا سکتا ہوں ۔ اکسیونوف کے گھر والے بہت امیر ہیں ۔ مگر ان کا باپ ہماری ہی طرح کہیں اس جیل میں قید ہے چونکہ وہ بھی ایک بہت بڑا گنہگار ہے ! آپ بتایئے ، بابا ، آپ یہاں کیوں آئے؟”
اکسیوننوف نے اپنی بد نصیبی کے بارے میں بتانا درست نہ سمجھا تو اس نے صرف اتنا ہی کہ دیا۔ “میں اپنے ایک گنہ کی وجہ سے اس جیل میں تقریبا َ چھبیس سال سے ہوں ۔”
“کون سا گنہ؟” مکر نے پوچھا۔
“خیر خیر ۔۔۔۔میں گنہگار تھا ۔” اکسیونوف نے تو کچھ نہیں کہا مگر اس کے ساتھیوں نے مکر کو سب بتا دیا کہ اکسیونوف سائبیریا میں کیوں آیا ہے ۔ انہوں نےبتایا کہ کیسے کسی اور نے ایک سوداگر کا قتل کیا اور اکسیونوف کو اس الزام میں قید کر دیا گیا۔ جب مکر نے یہ سب کچھ سنا تو اس کی آنکھیں اکسیونوف کو دیکھتی ہی رہ گئیں ۔ اس نے اپنے گھٹنے پر ہاتھ مار کر کہا۔
“خیر یہ سب بہت عجیب ہے! کافی عجیب!مگر آپ اتنےضعیف کیسے ہو گئے بابا”
دوسروں نے مکر سے بہت پوچھا کہ وہ اس بات پر اتنا کیوں چونکا اور یہ کہ اس نے اکسیونوف کو پہلے کہاں دیکھا تھا، مگر مکر کہ منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ اس نے بس اتنا ہی کہا ۔
“یہ بہت اچھی بات ہے کہ ہم یہاں آکر پھر سے ملے، دوست!”
ان لفظوں کو سن کر اکسیونوف نے سوچا کہ شاید کہیں یہ آدمی اس سوداگر کے قاتل کو جانتا ہو۔ تو آخر اس نے کہا ۔ ” سیمیونچ شاید تم نے مجھے پہلے دیکھا ہو یا پھر تم اس معملے کہ بارے میں کچھ جانتے ہو۔”
“میں صرف سن کر کیسے مدد کروں؟ یہ دنیا افواہوں سے بھری پڑی ہے اور ویسے بھی یہ بہت پرانا واقعہ ہے اور میں بہت چیزیں بھول گیا ہوں۔”
“شاید تم قاتل کو جانتے ہو؟” اکسیونوف نے پوچھا۔
“قتل تو اسی نے کیا ہوگا جس کے سامان میں چاقو ملا تھا ، اگر کسی اور نے وہاں چاقو چھپایا ہو گا، تو جیسا کہ کہا جا تا ہے ‘وہ جب تک پکڑا نہ جائے تب تک وہ چور نہیں’ کوئی آپ کے سامان میں چاقو کیسے چھپا سکتا تھا جبکہ آپ کا بستہ آپ کہ سر کے نیچے رکھا تھا ؟ وہ آپ کو ضرور اٹھا دیتا۔”
جب اکسیونوف نے یہ الفاظ سنے تو اس کو یقین ہو گیا کہ مکر ہی وہ آدمی ہے جس نے وہ قتل کیا تھا۔ اکسیونوف وہاں سے اٹھا اور چلا گیا۔ وہ رات اکسیونوف نے جاگ کر بتائی۔ اس کو بہت برا لگ رہا تھا اور وہ سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اسے اپنی بیوی کا چہرہ یاد آرہا تھا جب وہ اسے چھوڑ کر میلے کی طرف روانہ ہوا تھا۔اس نے اس کو ایسے یاد کیا جیسے کہ وہ وہاں موجود ہو؛اس کی آنکھیں اور اس کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا اور اس کی ہنسی کی خوبصورت آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔پھر اس نے اپنے بچوں کو یاد کیا، جو اس وقت کافی چھوٹے تھے، ایک جس نے اپنے برابر کا چوغہ پہنا تھا اور ایک وہ جو ابھی ماں کی گود میں ہی تھا۔۔ان سب کے بعد اس نے اپنے آپ کاوہ وقت یاد کیا جب وہ ایک بھرپور نوجوان تھا –طاقت ور اور ہنس مکھ۔ اس کو وہ وقت یاد آیا جب وہ آخری بار اس پیڑ کے نیچے بیٹھے گٹار بجا رہا تھا، اور یہ کہ وہ دنیا کی پریشانیوں سے کتنا آزاد تھا۔ ۔ وہ یہ سب یاد کر کے اتنا رنجیدہ ہو گیا کہ وہ اپنے آپ کو مارنے کی نوبت تک آپہنچا۔
“اور یہ سب اس ذلیل کا کیا دھرا ہے۔”اکسیونوف نے سوچا۔ یہ سب سوچ کر مکر کے خلاف اس کاغصہ بہت بڑھ گیا تھا جبکہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ غصہ کو دبادینا ہی سب سے اہم بات ہے۔ وہ پوری رات عبادت کرتا رہا مگر اس کو سکون نہیں ملا۔ اگلا پورا دن ، اس نے نہ تو مکر کے پاس جانا مناسب سمجھا اور نہ اس کی طرف دیکھنا۔ دو ہفتے ایسے ہی بیت گئے۔ اکسیونوف رات میں سو بھی نہیں پاتا، وہ بس دکھی ہو جاتا کیونکہ اس کو یہ نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ایک رات جب وہ جیل میں ٹہل رہا تھا ، اچانک اسے ایسا لگا جیسے زمین پر سے کوئی چیز ہلی اور وہاں سے کوئی قیدی نکلا۔ وہ رکا اور وہا ں غور سے دیکھنے لگا۔ وہ مکر تھا، اس کا چہرا سہما ہوا تھا۔ اکسیونوف اس کی طرف سے مڑا ہی تھا کہ مکر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بتایا کہ اس نے ایک سرنگ بنائی ہے، جو روڈ پر نکلتی ہے۔
“تم بس چپ رہنا بڈھے ، اس طرح تم بھی باہر نکل سکوگے۔ اگر تم نے کچھ بھی کہا تو وہ مجھے مار دیں گے مگر اس سے پہلے میں تمہیں مار دوں گا۔ “
اکسیونوف غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ مکر کے ہاتھ سے جھٹکا اور اس سے کہنے لگا۔
“مجھے جیل سے بھاگنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور تمہیں مجھے مار نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم نے مجھے بہت پہلے ہی مار دیا تھا۔ تمہارے بارے میں میں کچھ کروں نہ کروں ۔۔۔۔خدا ضرور کرے گا۔ “
اگلے دن جب سارے قیدی اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے تب کسی سپاہی نے یہ محسوس کیا کہ کسی ایک قیدی نے کوئی سرنگ بنائی ہے، کیونکہ اس کا پیر ایک گڈھے پر پڑا تھا۔ اس قیدی کی پورے جیل میں تلاش شروع ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ سرنگ میں بھی ۔ خود گورنر نے آکر سارے قیدیوں سےتفتیش کی۔سب نے صرف یہ ہی کہا کہ ان کو کچھ نہیں معلوم ۔ جن کو پتا تھا ، انہوں نے بھی انکار کیا کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اگر بتا دیا گیا تومکر سیمیونچ کو موت تک مل سکتی ہے۔ آخر میں گورنر اکسیونوف کی طرف بڑھا اور چونکہ وہ اس کو ایک سچا آدمی مانتا تھا اس لیے اس سے بھی اس بارے میں پوچھا۔
مکر سیمیونچ اپنی جگہ پر بت کی طرح کھڑا تھا، اس نے اپنی آنکھیں بھی اکسیونوف کی طرف نہیں کیں۔ اکسیونف کے ہاتھ پیراور ہونٹ کانپنے لگے اور وہ کئی دیر تک کچھ نہ کہہ سکا۔ اس نے سوچا۔
“آخر میں اس آدمی کی زندگی کو کیوں بچاؤں جس نے میری پوری زندگی برباد کر دی؟اسے اپنے گناہوں کی سزا ملنی چاہیے۔لیکن اگر میں گورنر کو سب بتا دوں تو وہ اس کو موت دے دیگا ، اور پھر کیا پتہ شاید میں ہی غلط ہوں، اور پھر اس سے میرا کیا فائدہ ہوگا؟”
“تو بابا، ہمیں سچ بتاؤ ، یہ سرنگ کس نے کھودی؟” گورنر نے اکسیونوف سے پھر سوال کیا۔
اکسیونوف کی نظر مکر کی طرف گئی اور گورنر کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔”میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، یورآنر۔ خدا نہیں چاہتا کہ میں کچھ کہوں ، میں آپ کے سامنے ہوں اور اس خاموشی کے بدلے میں آپ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔”
خیر یہ بات تو گورنر کو بھی پتا تھی کہ وہ کتنی بھی کوشش کر لے اکسیونوف سے اصل بات نہیں معلوم کر پائے گا ، الغرض اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اس رات جب اکسیونوف اپنے بستر پر لیٹ کر سونے ہی والا تھا، تبھی کوئی دبے پاؤں اس کے پاس آیا اور اس کے بستر پر بیٹھ گیا۔ اکسیونوف نے اپنی آنکھوں سے جب غور کرا تو دیکھا کہ وہ مکر تھا۔
“تمہیں مجھ سے اور کیا چاہیئے؟”اکسیونوف نے کہا”اب یہاں کیوں آئے ہو؟”
مکر سیمیونچ چپ بیٹھا رہا۔ تبھی اکسیونوف اٹھ بیٹھا اور بولا۔ “تمہیں کیا چاہیئے، جاؤ یہاں سے ورنہ میں سپاہیوں کو بلا لوں گا۔”
مکر اکسیونوف کی طرف جھکا اور اس کے کان میں بولا۔”آئیوان ، مجھے معاف کر دو۔”
“کس لئے؟” اکسیونوف نے پوچھا۔
“وہ میں ہی تھا جس نے اس سوداگر کا قتل کیا تھا اور وہ چاقو تمہارے سامان میں چھپا دیا تھا۔ میں تو تم کو بھی مارنے والا تھا، مگر پھر میں نے باہر سے کوئی آواز سنی توچاقو تمہارے سامان میں چھپا کر وہاں سے بھاگ گیا۔”
اکسیونوف خاموش تھا ، اسے بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کہے۔ مکر سیمیونچ بستر پر سے ہٹا اور زمین پر آکر اکسیونوف سے بولا۔
“مجھے معاف کر دو، خدا کے لئے مجھے معاف کردو، میں یہ بات گورنر صاحب کو بتا دونگا کہ وہ قتل میں نے کیا تھا اور پھر تم آزاد ہو گے۔ “
“تمہارے لیے یہ کہنا آسان ہے”اکسیونوف نے کہا”مگر میں نے یہاں اپنے چھبیس سال کاٹ دیے ہیں، میں اب کہاں جاؤں گا، میرے بیوی مر گئ اور میرے بچے مجھے بھول چکے ہیں،میرے پاس اب جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔”
مکر اٹھا نہیں بلکہ اس نے اپنا سر زمین میں مارا اور پھر کہنے لگا۔
“آیئوان، مجھے معاف کر دو، ” وہ چیخا”کوڑھے سے پٹنا اتنا دردناک نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے تم کو دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے۔ اور ابھی بھی تمہیں مجھ پر ترس ہے کہ جو تم کسی کو بتاتے نہیں۔عیسی کے نام پر مجھے معاف کر دو، میں کتنا نیچ ہوں”اس نے کہا اور رونے لگا۔
جب اکسیونوف نے اس کو روتا دیکھا تو اس کی بھی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ “خدا تمہیں معا ف کرے، شاید میں تم سے بھی سو گنا برا تھا۔” پھر یہ الفاظ کہ کر اس کا دل ہلکا ہوا اور اس کے گھر جانے کی خواہش مری۔ اس کے دل میں اب جیل چھوڑ کر جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، بلکہ وہ تو اب اپنے اخری وقت کے انتظار میں تھا۔
ان سب باتوں کو دور رکھ کر مکر نے گورنر کو سب سچ بتا دیا۔ مگر جب تک اکسیونوف کی رہائے کے آرڈر آئے، وہ مر چکا تھا
International Women Day March 8, 2008
Posted by Farzana Naina in Ghazal, Kavita, Poetry, Shairy, Sher, Urdu.Tags: Ghazal, International Women Day, Pakistani Poetess, Poetry, Shairi, Sher, Urdu
3 comments
Saghar Siddiqui – ساغر صدیقی March 7, 2008
Posted by Farzana Naina in Ghazal, Kavita, Poetry, Shairy, Sher, Urdu.Tags: Ghazal, Pakistani Poetess, Poetry, Saghar Siddiqui, Shairy, Sher, Urdu
17 comments
Saghar Siddiqui (1928-1974)
was an Urdu poet from Pakistan. In spite of his ruined and homeless alone life, he remained famous and successful till his death among the masses. Saghar is also known as a saint and when he died, he left nothing but a pet, his dog, who also died on the same foot path where Saghar died a few days earlier.
Biography
Saghar was born in 1928 in Ambala as Muhammad Akhtar. History has no record of Saghar’s personal life and very less is known as he never spoke to anyone in this regard.
Saghar started poetry at very young age. At age 16, he would regularly attend mushairas.At aged 19, he migrated to Pakistan in 1947 and settled in Lahore. At the time of partition, he was only 19 years old. In those days with his slim appearance, wearing pants and boski (yellow silky cloth) shirts, with curly hair, and reciting beautiful ghazals in a melodious voice, he became a huge success. He had some tragic turns in his life. He continued to write poetry for the film industry and moved on to publish a literary magazine. The magazine was a critical success but a commercial flop. Disappointed, Saghar shut down the magazine. In his later life, he fell into depression, financially ruined and addicted to drugs.
Sometimes he would have to sell his poetry to other poets for a few rupees. He would use the waste paper spread around to light fires to stay warm during winter nights.
Death
On 19 July 1974, he was found dead on a roadside in Lahore at the age of 46. His dead body was found one early morning outside one of the shops. He was buried at the Miani Sahib graveyard. His dog also died there after a few days of Saghar’s death. Despite his shattered life, some of his verses (ash’aar) are among the best in Urdu poetry. It is unbelievable that he kept his inner self so pure and so transcending. He will always be shining like a star in Urdu poetry.
نام محمد اختر اور تخلص ساغر تھا۔۱۹۲۸ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔گھر میں بہت تنگ دستی تھی اس لیے ان کی تعلیم واجبی سی ہوئی۔۱۵؍بر س کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغر صدیقی ہوگئے۔ترنم بہت اچھا تھا۔لطیف گورداس پوری سے اصلاح لینے لگے۔۱۹۴۷ء میں وہ لاہور آگئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ انھوں نے متعدد فلموں کے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔۱۸؍جولائی ۱۹۷۴ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’زہر آرزو‘، ’غم بہار‘، شب آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوح جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘۔ ’’کلیات ساغر ‘‘ ۔
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
؎
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
؎
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
؎
اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار چپ ہو جا
؎
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
؎
ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام
اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام
؎
اے دل بے قرار چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار چپ ہو جا
؎
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
؎
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
؎
بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا
؎
تقدیر کے چہرہ کی شکن دیکھ رہا ہوں
آئینۂ حالات ہے دنیا تیری کیا ہے
؎
تم گئے رونق بہار گئی
تم نہ جاؤ بہار کے دن ہیں
؎
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اک ہوش کی ساعت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
؎
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
؎
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
؎
جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی
ان محبت کی روایات نے دم توڑ دیا
؎
جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو
عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو
؎
جو چمن کی حیات کو ڈس لے
اس کلی کو ببول کہتا ہوں
؎
جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا
؎
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
؎
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
؎
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
؎
خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں
زندگی کا وقار دیکھا ہے
؎
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
؎
رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا
اب تو آ جاؤ! وقت نازک ہے
؎
زلف برہم کی جب سے شناسا ہوئی
زندگی کا چلن مجرمانہ ہوا
؎
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
؎
غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
؎
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں
؎
مر گئے جن کے چاہنے والے
ان حسینوں کی زندگی کیا ہے
؎
مسکراؤ بہار کے دن ہیں
گل کھلاؤ بہار کے دن ہیں
؎
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
؎
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
؎
میں تلخی حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
؎
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
؎
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجئے
؎
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
؎
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
؎
ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام
؎
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
؎
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
؎
حادثے کیا کیا تمہاری بے رخی سے ہوگۓ
ساری دنیا کے لیۓ ہم اجنبی سے ہوگۓ
کچھ تمہارے گیسوؤں کی برہمی سے ہوگۓ
کچھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہوگۓ
بندہ پرور کھل گیا ہے آستانوں کا بھرم
آشنا کچھ لوگ راز بندگی سے ہوگۓ
گردش دوراں زمانے کی نظر آنکھوں کی نیند
کتنے دشمن ایک رسم دوستی سے ہوگۓ
زندگی آگاہ تھی صیاد کی تدبیر سے
ہم اسیر دام گل اپنی خوشی سے ہوگۓ
اب کہاں اے دوست چشم منتظر کی آبرو
اب تو ان کے عہد و پیماں ہر کسی سے ہوگۓ
Sheikh Abdul Qadir Jilani March 5, 2008
Posted by Farzana Naina in Religion.Tags: Islam, Sheikh Abdul Qadir Jilani, Sufi
65 comments