jump to navigation

Welcome November 4, 2006

Posted by Farzana Naina in Blogroll, Famous Urdu Poets, Farzana Naina, Ghazal, Karachi, Kavita, Naina, Nazm, Nottingham, Pakistan, Pakistani, Pakistani Poetess, Poetess, Shairy, Sher, Sufi Poets, Urdu, Urdu Literature, Urdu Poetry.
3 comments

قلمی نام : نیناں

برطانیہ میں منظرِ عام پر آنے والی چند شاعرات میں فرزانہ نیناںؔ کا نام بڑا معتبر ہے،۔

متنوع صلاحیتوں کی مالک فرزانہ خان نیناؔں کا تعلق سندھ کے ایک سربر آوردہ خانوادے سے ہے۔

مجلسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور اپنی ادبی تنظیم نوٹنگھم آرٹس اینڈ لٹریری سوسائٹی کے تحت کئی برس سے مشاعرے و دیگر تقریبات بخوبی منعقد کرواتی رہتی ہیں جو کہ ان کی خوش سلیقگی و خوب ادائیگی کی بھرپور آئینہ دار ہیں،

اس شگفتہ وشستہ ہونہار شاعرہ کے انکل محمد سارنگ لطیفی سندھی زبان کے مشہور شاعر، صحافی اور ڈرامہ نویس تھے اور اس رحجان کا سلسلہ انہی سے جا ملتا ہے،

کراچی سے رشتہء ازدواج میں منسلک ہوکر برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں آباد ہوئیں، شعبہ ٔ ٹیلی کمیونیکیشن میں بطور انسپکٹر ملازمت کی،پھر ٹیچرز ٹریننگ اور بیوٹی کنسلٹنٹ کی تعلیم حاصل کی اور مقامی کالج میں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں ساتھ ہی میڈیا اور جرنلزم کے کورسز میں ڈپلوما بھی کیئے یوں مقامی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی وابستگی ہوئی،

ان کے پیش کردہ پروگرام خصوصی خوبیوں کی بنا پر دلچسپ اور معلوماتی ہوتے ہیں اور اپنے انداز کی وجہ سے یورپ بھر میں بیحد مقبول ہیں،

ابتدا میں نثری کہانیاں لکھیں اور نظم سے سخن طرازی کا آغاز کیا،جبکہ نثری رنگ میں گہرائیوں کی بدولت کتابوں پر تبصرہ جات اور کالم بھی ایسے دلچسپ لکھتی ہیں کہ پڑھنے والے مزید کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں،

فرزانہ نیناںؔ کے خاص نسائی لہجے و منفرد انداز شعرگوئی نے یک لخت اہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کر کے برطانیہ کی مسلمہ شاعرات کے طبقے میں اپنا معتبر مقام بنا یا ہوا ہے ،ان کا شعری مجموعہ بعنوان ۔۔’’درد کی نیلی رگیں‘‘ منظرعام پر جب سے آیا ہے تخلیقی چشمے میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے،

منفرد نام کی طرح مجموعے کی کتابی شکل و صورت میں بھی انفرادیت ہے، ایک ہی رنگ کا استعمال شاعری میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے وہ اب سے پہلے کسی نے نہیں کیا ،پوری شاعری میں محسوسات کو تمثیلوں کے ذریعے تصاویر کی طرح اجاگر کیا گیا ہے، اشعار میں جذبوں سے پیدا ہونے والی تازگی بدرجہ اتم جھلکتی ہے، ہر مصرعے اور ہر شعر پر ان کے رنگ کی خاص نسائی چھاپ موجود ہے،

آغاز سے ہی یہ دو اشعار ان کا حوالہ بن چکے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے  چائے کے برتن چھوٹے تھے

Blue Flower 41

میں نے کانوں میں پہن لی ہے تمہاری آواز
اب مرے واسطے بیکار ہیں چاندی سونا

شعری مجموعہ” درد کي نيلي رگيںٰ ”  اپنے نام، کلام ميں نيلے رنگوں کي تماثيل، سائز، ہٗيت، اور تحرير کی چھپائی کے منفرد ہونے کي وجہ سے بہت سراہا گیا ہے، اگر آپ اردوشاعری کے دلدادہ ہيں، جديد شاعری کی باريکيوں سے لطف اندوز ہوتے ہيں تو يہ کتاب اپنی لابريری کی زينت ضرور بنائيں۔
اي ميل کا پتہ :

farzananaina@gmail.com
farzananaina@yahoo.co.uk

welcome blue 106

ISLAMABAD:

Mushaira held in honour of expat poet

(Reporter of Dawn news paper)

• ISLAMABAD, Jan 10: A Mushaira was organized in honour of British-Pakistani Urdu poetess, Farzana Khan ‘Naina’ at the Pakistan Academy of Letters (PAL) on Friday. The event was presided over by the PAL chairman, Iftikhar Arif.

• Mr Arif said Farzana Khan was typical of expatriate poets who had an advantage over native poets in expressing original ideas and imagery. He said this was also a fact that expatriate writers were not well at transmuting feelings with the same intensity. In his view, Farzana Khan was certainly a new distinctive voice in Urdu poetry. She used tender expressions and a strange and novel scheme in meters that reverberated with strong musical beats.

• In fact Iftikhar Arif’s verses, which he read at the end of the Mushaira, sounded like a well deserved tribute to the poetess; Mere Chirag Hunar Ka Mamla Hai Kuch Aur Ek Baar Jala Hai Phir Bujhe Ga Naheen (The Muse this time is bright, and once lighted it will not be extinguished).

• A number of senior poets read their poetical pieces at the Mushaira that was conducted by a literary organization, Danish (Wisdom).

Here, Farzana Khan surprised everyone with the range and depth in the couplet that she read “Meine Kaanon Main Pehan Lee Hai Tumhari Aawaz/Ab Meray Vastey Bekaar Hain Chandi Sona”.

She seeks inspiration for her poetry from the glades of Nottinghamshire, England, the county of Lord Byron and Robin Hood, where she had been living for over many years.

Farzana Khan is a Chair person of Nottingham Arts and Literature Society, She works as a broadcaster for Radio Faza and MATV Sky Digital, besides being a beauty therapist and a consultant for immigrants’ education.

Her book of Urdu poetry titled Dard Ki Neeli Ragen (Blue veins of pain) is a collection of 64 Ghazals and 24 Nazms.

The collection has received favourable reviews from a number of eminent Urdu poets, including Dr.Tahir Tauswi, Rafiuddin Raaz, Prof.Shahida Hassan, Prof.Seher Ansari, Ja zib Qureshi, Haider Sherazi, Sarshar Siddiqui, Naqash Kazmi, Nazir Faruqi, Aqeel Danish, Adil Faruqi, Asi Kashmiri,Prof.Shaukat Wasti, Mohsin Ehsan, who had stated that her work was marked with ‘Multicolour’ words. Everyone was impressed with her boldness as well as her delicate feelings, he added.

In addition there is an extraordinary rhythm. About technical aspects of Farzana’s work, a literary critic, Shaukat Wasti, says it deserve serious study.

Name Naina multi pastle 1

میری شاعری میرے بچپن اور جوانی کی کائنات کےرنگوں میں ڈھلی ہے، یادیں طلسمَاتی منظروں کو لیئےچلی آتی ہیں

وہ منظرجو دیو مالائی کہانیوں کی طرح، الف لیلوی داستانوں کی طرح، مجھےشہرزاد بننے پر مجبور کردیتے ہیں،عمر و عیار کی زنبیل سےہر بار کچھ نہ کچھ نکل آتا ہے، شہر بغداد کی گلیاں اجڑ چکی ہیں،نیل کے پانیوں میں جلتے چراغ، دھواں بن کر اوپر ہی اوپر کسی انجانے دیس میں جا چکے ہیں ، دجلہ کے دھاروں سا جلترنگ کہیں سنائی نہیں دیتا۔۔۔

گلی کےآخری کنارے پر بہنے والا پرنالہ  بنجر ہوچکا ہے جہاں اسکول سے واپس آتے ہوئےمیں،بر کھا رت میں اپنی کاپیاں پھاڑ کر کاغذ کی کشتیوں میں تبدیل کر دیا کر تی تھی۔۔۔

گھر کے پچھواڑے والا سوہانجنےکا درخت اپنے پھولوں اور پھلیوں سمیت وقت کا لقمہ بن چکا ہے، جس کی مٹی سےمجھےکبھی کبھی کبھار چونی اٹھنی مل جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

پیپل کے درخت کے وہ پتے جن کی پیپی بنا کر میں شہنائی کی آواز سنا کرتی تھی،اس کی لٹکتی ہوئی جڑیں جو مجھےسادھو بن کر ڈراتی تھیں، مہاتما بدھ کے نروان کو تلاش کرتے کرتے پچھلی صدی کی گپھا میں ہی رہ گئے ہیں۔۔۔

میری شاعری نیلگوں وسیع و عریض، شفاف آسمان کا کینوس ہے،جہاں میں اپنی مرضی کی تصویریں پینٹ کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رابن ہڈ کےاس شہر کی سرنگیں، نجانے کس طرح میڈ میرین کو لے کر مغلیہ دور کے قلعوں میں جا نکلتی ہیں۔۔۔

لارڈ بائرن اور ڈی ایچ لارنس کا یہ شہر،دھیرے دھیرے مجھے جکڑ تا رہا، ولیم ورڈز ورتھ کے ڈیفوڈل اپنی زرد زرد پلکوں سےسرسوں کےکھیت یاددلاتےرہے۔۔۔

نوٹنگھم شہر کی چوک کے وسط میں لہراتا یونین جیک، نجانے کس طرح سبز پاکستانی پرچم کے چاند تارے میں بدل جاتا ہے۔۔۔

پرانی کیسٹوں میں ریکارڈ کئےہوئےگیت اور دوہے، کسی نہ کسی طرح پائلوں میں رمبھا، سمبھا اور لیٹن کی تھرک پیدا کردیتےہیں۔۔۔

شیلےاور کیٹس کا رومانوی انداز،غالب اور چغتائی کےآرٹ کا مرقع بننےلگتا ہے۔۔۔

مجھے جوگن بنا کر ہندی بھجن سسنے پر بھی مجبور کرتی ہیں ۔۔۔ Hymnsشیلنگ کی

سائنسی حقیقتیں،میرےدرد کو نیلی رگوں میں بدلنےکی وجوہات تلاش کرتی ہیں۔۔۔

کریم کافی،مٹی کی سوندھی سوندھی پیالیوں میں جمی چاندی کے ورق جیسی کھیر بن کر مسجدوں سے آنے والی اذان کی طرح رونگھٹے کھڑے کر دیتی ہے۔۔۔۔

سونےکےنقش و نگار سے مزین کتھیڈرل، اونچےاونچے بلند و بالا گرجا  گھر،مشرق کے سورج چاچا اور چندا ماما کا چہرہ چومتےہیں۔۔۔

وینس کی گلیوں میں گھومتے ہوئے،پانی میں کھڑی عمارتوں کی دیواروں پر کائی کا سبز رنگ ،مجھےسپارہ پڑھانے والی استانی جی کےآنگن میں لگی ترئی کی بیلوں کی طرح لپٹا۔۔۔

جولیٹ کےگھر کی بالکنی میں کھڑے ہو کر،مجھے اپنے گلی محلوں کے لڑ کوں کی سیٹیاں سنائی دیں۔۔۔

شاہ عبدالطیف بھٹائی کےمزار اور سہون شریف سےلائی ہوئی کچےکانچ  کی چوڑیاں، مٹی کےرنگین گگھو گھوڑے جب میں تحفتا اپنےانگریز دوستوں کے لئے لائی تو میری سانس کی مالا فقیروں کے گلوں میں پڑے منکوں کی مانند بکھر کر کاغذپر قلم کی آنکھ سےٹپک گئی۔۔.

شاعری مجھےاپنی ہواؤں میں،پروین شاکر کی خوشبو کی طرح اڑانےلگتی ہے، موتئےکی وہ کلیاں یاد دلاتی ہےجنھیں میں قبل از وقت کھلاکر گجرا بنانے کیلئے، کچا کچا توڑ کر بھیگے بھیگے سفید ململ میں لپیٹ دیا کر تی تھی،اور وہ رات کی رانی جو میری خوابگاہ کی کھڑکی کے پاس تھی ،آج بھی یادوں کی بین پر لہراتی رہتی ہے۔۔۔۔
شاعری ایک نیلا نیلا گہرا سمندر بن کر ان لہروں کے چھینٹے اڑانے پر مجبور کردیتی ہے،جہاں میں اتوار کو گھر والوں کےساتھ جاکر اونٹوں کےگلے میں بجتی گھنٹیوں کےسحر میں مبتلا ،سیپیاں چنتےچنتے، ریت میں سسی کےآنچل کا کنارہ،ڈھونڈنے لگتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنہری دھوپ کےساتھ بچپن کےاس گاؤں کی طرف لےجاتی ہےجہاں ہم گرمیوں کی چھٹیاں گزارنےجاتےتھے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معصوم سہیلیوں کے پراندوں میں الجھا دیتی ہےجن میں وہ موتی پرو کر نشانی کےطور پر مجھےدیتی تھیں،تاکہ میں انھیں شہر جاکر بھول نہ جاؤں۔۔۔

شاعری وہ نیل کنٹھ ہےجو صرف گاؤں میں نظر آتا تھا،

جس کے بارے میں اپنی کلاس فیلوز کو بتاتےہوئے میں ان کی آنکھوں کی حیرت سےلطف اندوز ہوتی اورصوفی شعرا کےکلام جیسا سرور محسوس کرتی۔۔۔

شاعری ان گلابی گلابوں کےساتھ بہتی ہےجنھیں میں اپنےابو کے گلقند بنانے والےباغوں سےتوڑ کر اپنی جھولی میں بھرکر،ندیا میں ڈالتی اوراس پل پرجو اس وقت بھی مجھےچینی اور جاپانی دیو مالائی کہانیوں کےدیس میں لےجاتا تھا گھنٹوں کھڑی اپنی سہیلیوں کےساتھ اس بات پر جھگڑتی کہ میرےگلاب زیادہ دور گئےہیں۔۔۔۔

صفورے کےاس درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھادیتی ہےجو ہمارے باغیچےمیں تھا اور جس کےنیلےاودے پھول جھڑ کر زمین پر اک غالیچہ بنتی،جس پر سفر کرتے ہوئےمجھے کسی کنکورڈ کی چنگھاڑ نہیں سنائی دیتی تھی۔۔۔

شاعری بڑے بھائی کی محبتوں کی وسعتوں کا وہ نیلا آسمانی حصار ہے،جو کبھی کسی محرومی کےاحساس سےنہیں ٹوٹا۔۔۔۔

کڑوے نیم تلے جھلنے والا وہ پنکھا ہے جس کے جھونکے بڑی باجی کی بانہوں کی طرح میرے گرد لپٹ جاتےہیں۔۔۔

شاعری سڑکوں پر چھوٹے بھائی کی موٹر سائیکل کی طرح فراٹےبھرتی ہےجس پر میں اس کےساتھ سند باد جیسی انگریزی فلمیں دیکھنے جاتی اور واپسی پر جادوگر کے سونگھائے ہوئے نیلے گلاب کےاثر میں واپس آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اان تتلیوں اور مورنیوں کے پاس لےجاتی ہےجو چھوٹی بہنوں کی صورت، آپی آپی کہہ کر میرے گرد منڈلاتی رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ان چڑیوں کی چوں چوں سنواتی ہےجن کو میں دادی کی آنکھ بچا کر باسمتی چاول، مٹھیاں بھر بھر کے چپکے سے چھت پر کھلاتی اور ان کی پیار بھری ڈانٹ سنا کرتی تھی۔۔۔

شاعری میرے طوطے کی گردن کے گرد پڑا ہوا سرخ کنٹھا بن جاتی ہے، جس سےٹپکنے والے سرخ لہو کےقطرے یادوں کے دریا میں گرتے ہی لعل و یاقوت بن کر راجکماری کےمحل کو جانےوالی سمت بہتے ہیں، انار کی نارنجی کچی کلیاں ہیں جو نگہت اور شاہین،اپنی امی سےچھپ کر میرے ساتھ توڑلیتیں، جس کے بعد بقیہ انار پکنے تک گھر سے نکلنا بند ہوجا یا کرتا تھا۔۔۔۔

یہ شاعری مجھےمولسری کی ان شاخوں میں چھپادیتی ہے جن پر میں اور شہنازتپتی دوپہروں میں مولسریاں کھا کر ان کی گٹھلیاں راہگیروں کو مارتےاور اپنے آپ کو ماورائی شخصیت سمجھتے۔۔۔

یہ میری سہیلی شیریں کےگھر میں لگے ہوئےشہتوت کےکالےکالے رسیلے گچھوں جیسی ہے جن کا ارغوانی رنگ سفید یو نیفارم سے چھٹائے نہیں چھٹتا ۔۔۔۔

شاعری مجھےان اونچی اونچی محرابوں میں لےجاتی ہے جہاں میں اپنی حسین پھپھیوں کو کہانیوں کی شہَزادیاں سمجھا کرتی ،جن کے پائیں باغ میں لگا جامن کا درخت آج بھی یادوں پر نمک مرچ چھڑک کر کوئلوں اور پپیہوں کی طرح کوکتا ہے، شاعری بلقیس خالہ کا وہ پاندان یاد دلاتی ہے جس میں سپاری کےطرح ان لمحوں کےکٹے ہوئےٹکڑے رکھے ہیں جن میں ،میں ابن صفی صاحب سے حمیدی ،فریدی اور عمران کےآنے والے نئے ناول کی چھان بین کرتی ، خالہ کےہاتھ سے لگے ہوئے پان کا سفید چونا،صفی صاحب کی سفید  کار کی طرح اندر سےکاٹ کر تیز رفتاری سےاب بھی گزرتا ہے۔۔۔

یہ کبھی کبھی مجھےموہنجو دڑو جیسے قبرستان میں کھڑا کر دیتی ہے ، جہاں میں اپنے ماں ،باپ کےلئے فاتحہ پڑھتے ہوئے کورے کانچ کی وقت گھڑی میں ریت کی مانند بکھرنے لگتی ہوں،مصری ممیوں کی طرح حنوط چہروں کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں،نیلگوں اداسیاں مجھےگھیر لیتی ہیں، درد کی نیلی رگیں میرے تن بدن پر ابھرنےلگتی ہیں،شب کےنیلگوں اندھیرےمیں سر سراتی دھنیں، سایوں کی مانند ارد گرد ناچنےلگتی ہیں،ان کی نیلاہٹ ،پر اسرار طمانیت کے ساتھ چھن چھن کر دریچوں کا پٹ کھولتی ہے، چکوری کی مانند ،چاند ستاروں کے بتاشے سمیٹنے کی خواہشیں کاغذ کے لبوں پر آجاتی ہیں ،سقراط کے زہریلے پیالےمیں چاشنی ملانےکی کوشش تیز ہو جاتی ہے، ہری ہری گھاس کی باریک پتیوں پہ شبنم کی بوندیں جمتی ہی نہیں،والدین جنت الفردوس کو سدھارے، پردیس نے بہن بھائی اور ہمجولیاں چھین لیں، درد بھرے گیت روح چھیلنے لگے،حساسیت بڑھ گئی  ڈائری کے صفحے کالے ہوتے گئے، دل میں کسک کی کرچیاں چبھتی رہیں، کتابیں اور موسیقی ساتھی بن گئیں، بے تحاشہ مطالعہ کیا، جس لائیبریری سےجو بھی مل جاتا پیاسی ندی کی مانند پی جاتی،رات گئے تک مطالعہ کرتی، دنیا کےمختلف ممالک کےادب سے بھی شناسائی ہوئی، یوں رفتہ رفتہ اس نیلےساگر میں پوری طرح ڈوب گئی۔ ۔ ۔

شاعری ایک اپنی دنیا ہےجہاں کچھ پل کےلئےاچانک سب کی نظر سےاوجھل ہو کر میں شہرِ سبا کی سیڑھیاں چڑھتی ہوں، اسی لیئےمیری شاعری سماجی اور انقلابی مسائل کےبجائے میری اپنی راہ فرار کی جانب جاتی ہے، ورنہ اس دنیا میں کون ہےجس کو ان سےمفر ہے!۔

  شاعری مجھے نیلے نیلےآسمان کی وسعتوں سے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے سپید ٹکروں کی مانند، خواب وخیال کی دنیا سے نکال  کر، سرخ سرخ اینٹوں سے بنے ہوئے گھروں کی اس سرزمین پراتار دیتی ہے جہاں میں زندگی کے کٹھن رستوں پر اپنے شوہر کے ساءبان تلے چل رہی ہوں، جہاں میرے پھول سے بچوں کی محبت بھری مہک مجھے تروتازہ و سرشار رکھتی ہے۔Name Naina Iceblue heart

ٹیسٹ October 6, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

Testing site سائٹ

Ab kahan hogi mulaqaat July 26, 2023

Posted by Farzana Naina in British Pakistani Poetess, Famous Urdu Poets, Farzana, Farzana Naina, Feelings, Ghazal, Kavita, Mushaira, Nazm, Poetry, Shaira, Shairy, Sher, Urdu Shairy.
add a comment

اب کہاں ہوگی ملاقات ترے خوابوں سے
نیند کا مجھ سے تعلق نہ مری آنکھوں سے

جگمگاتا ہے جہاں ہجرزدوں کا چہرہ
چاند گھبرا کے چلا جاتا ہے ان راہوں سے

بارشیں روز نئے گیت سنا دیتی ہیں
چھتریاں کھلتی ہیں چہروں پہ کئ بانہوں سے

یہ گلابوں سے حسیں جھومتے نازک پیکر
ٹوٹ جاتے ہیں محبت میں کبھی شاخوں سے

جب زمستانی ہواؤں میں شگوفے اترے
گرم کافی سا دھواں اٹھنے لگا سانسوں سے
#farzananaina #urdupoetry
Ab kahan hogi mulaqaat tere khwabon se
Neend ka mujh se ta’aluq na meri aankhon se

Jagmagata hai jahan hijr’zadon ka chehra
Chand ghabra ke chala jata hai un raahon se

Baarishein roz naey geet suna deti hain
Chatriyaan khulti hain chehron pe kai banhon se

Ye gulabon se haseen jhoomte nazuk paiker
Toot jaate hain mohabbat mein kabhi shakhon se

Jab zamastani hawaon mein shagoofey utrey Garm coffee sa dhuan uthne laga saanson se

فشار Nazm July 14, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

فشار


عجب سی کیفیت ہے یہ
سمٹ کر اپنی دنیا میں چلی جاؤں
یا گہرے وسوسوں کو جھاڑ کر
باہر نکل آؤں…..
نجانے ایسا کیوں لگتا ہے
جیسے۔۔۔۔ تتلیوں کے باغ میں کوئی
اچانک آئے اور۔۔۔۔ ان کو پکڑ لے
لہو کے رنگ سےہاتھوں کو رنگے
ہوا میں ان کے سارے پر بکھیرے
پھر ہنستے
ہنستے لوٹ جائے …!
فرزانہ نیناں

#urdupoetry #nazm #farzananaina #shairy #hindipoetry

ارنسٹ ہیمنگوے-Ernest Hemingway June 18, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

“ارنسٹ ہیمنگوے : مابعد جنگ عظیم اول کا مہم جو اور گمشدہ نسل کا ادیب اور فکشن نگار”

ارنسٹ ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو شکاگو کے مضافات اوک پارک میں پیدا ہوئے ان کے والد گریس ہال ہیمنگوے ایک دیہاتی ڈاکٹر تھے، وہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اتنے خوش ہوئے کہ گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر بگل بجا کر اعلان کیا کہ ان کی بیوی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ہیمنگوے کو شکار اور مچھلی پکڑنے کا شوق تھا۔ جنگلوں میں جا کر کیمپ لگانا اور خطرناک جانوروں کو دیکھنا ان کا مشغلہ تھا۔ ان کے والد کا ولوں (ؤاللہہن) جھیل کے پاس ایک گھر تھا۔ ارنسٹ زیادہ وقت وہیں گزارتے۔ دور دراز گنجان جنگلوں میں جا کر رہنا انہیں بہت پسند تھا۔ فطرت کے اس قرب نے اس کی تحریروں میں بڑی جگہ پائی ہے۔ سکول کے زمانے میں اس نے اسکول کے میگزین اور اخبار کو سنبھالا۔ یہ تجربہ ان کے بہت کام آیا۔ جب وہ سکول سے گریجوایشن کرکے فارغ ہوا تو ان کو کنساس کے ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت مل گئی۔ یہ نوکری انہیں اپنے چچا کے توسط سے ملی جو چیف ایڈیٹر کا دوست تھا، ہیمگوے نے ادب کی شدید لگن میں کالج کی روایتی تعلیم کو خیر باد کہا، فوج میں بھرتی ہوئے اور پہلی جنگ عظیم میں بطورِ ایمولینس ڈرائیور جنگ میں شرکت کی۔ 8 جولائی 1918ء کو فرائض کی انجام دہی کے دوران مورٹرشل لگنے سے زخمی ہوگئے ،جس سے بطور ایمولینس ڈرائیور اُن کا کیئریر انجام کو پہنچا، اس کے علاوہ اُس کو گولی بھی لگی۔ زخمی ہونے کے باوجود زخمی اطالوی فوجی کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے کارنامے کے نتیجے میں اُن کو اطالوی حکومت نے ایوارڈ سے بھی نوازا، ان کا خیال تھا کہ جس طرح مارک ٹوین، سٹیفن کرین ناول نگار بننے سے پہلے صحافی تھے، ارنسٹ کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں صرف چھ ماہ نوکری کی مگر یہاں انہوں نے اچھی نثر لکھنے کے سنہری اصول سیکھے –
1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناولٹ چھپا، جو کہ ارنسٹ کو مقبولیت دلوانے میں بہت مددگار ثابت ہوا، ناول کی کہانی ہیروجیک بارنس کے اردگرد گھومتی ہے، جسے جنگ نے بہت بڑا زخم دیا ہے اور وہ زخم ہے اس کی مردانہ صلاحیت سے محرومی، اسے نہ نیند آتی ہے، نہ چین، بس روتا رہتا ہے، اسے سماج اور سوسائٹی کی ہر چیز سے نفرت ہو چکی ہے، وہ پیرس جا کر ایک ایسے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جس کی ساری سرگرمیاں بے مقصد ہیں، ان میں ہر شخص جنگ کا زخم خوردہ ہے -اسی سبب ایذرا پاؤنڈ اور اس کے ہم خیال ادیبوں نے اس تحریک اور رویئے کو ” گمشدہ نسل” کا نام دیا تھا۔

-ہیمگوے کے ناول’’ اے فیئر ویل ٹو آرمز‘‘ کا ترجمہ’’ الودع جنگ‘‘ کے نام سے ہو چکا ہے اور اسکی متعدد کہانیاں بھی اردو میں ڈھل چکی ہیں۔
”سمندر اور بوڑھا” ہیمنگوئے کا وہ شہر آفاق ناول ہے جو انہوں نے کیوبا میں 1951 میں لکھا ، یہ ناول ایک بوڑھے مچھیرے کی کہانی ہے جو کافی دن مچھلی پکڑنے میں ناکام رہتاہے، وہ کبھی کاسانتیاگو چمپئن تھا، اب لوگوں کی نظر میں بس ’’ سلاؤ‘‘ بن کے رہ گیا جو بدقسمتی کی بدترین مثال ہے۔ بوڑھا اور سمندر کو عدیم النظیر پذیرائی حاصل ہوئی۔ 1953 میں انہیں اسی ناول کی بنیاد پر ان کو ُ

Pulitzer prize

جبکہ اس سے اگلے برس ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

1920میں ہیمنگوے اخبار’’ٹورانٹو سٹار‘‘کے ساتھ وابستہ ہوئے اور بطور فری لانسر، سٹاف رائیٹر اور غیر ملکی نمائدہ کے طور پر کام کرنے لگے۔یہیں ان کی دوستی رپورٹر مورلے کلاگن سے ہوئی،مورلے نے اس زمانے میں جب افسانے لکھے تو اس نے ہمینگوے کو دکھائے تو انہوں نے بنظر احسن دیکھا، بعد میں دونوں پیرس میں ایک مرتبہ پھر اکھٹے ہوئے کچھ عرصہ تک ہیمنگوے شکاگو کے جنوب میں رہے جہاں وہ ٹورانٹو سٹار کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ ماہنامہ’’کوآپریٹو کامن ویلتھ‘‘سے بطور ایڈیٹر وابستہ تھے۔ تین ستمبر 1921میں ان کی شادی ہوئی، ہنی مون کے بعد وہ بیوی کے ہمراہ ایک شکستہ اپارٹمنٹ میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ ہیمنگوے کی بیوی اس قیام گاہ کو ذرا بھی پسند نہ کرتی تھی اور اسے تاریک اور پریشان کن قرار دیتی تھی بہرحال شادی کے ابتدائی دنوں میں جھگڑے بڑھتے رہے اور بالآخر طلاق پر بات ختم ہوئی۔

1927 میں ہیمنگوے پالین فیفر سے شادی کر لی جو فیشن رپورٹر تھی۔
1939میں مسٹر ہیمنگوے نے اپنی دوسری جھگڑالو بیوی کو بھی طلاق دے دی جس کے باعث وہ ویسٹ فلوریڈا میں اپنے گھر سے محروم ہوگئے، طلاق کے کچھ ہی ہفتوں بعد انہوں نے سپین میں چار سال سے اپنے ساتھ کام کرنے والی مارتھا گیلہوم سے تیسری شادی رچائی ۔
ہیمنگوے کے تین بیٹے ہوئے” کے جیک، پیٹرک اور گیگری” ہیں۔
اسپین کے شہر پامپلونا میں ان کی روایتی بُل{ بیل} ریس کو عالمی شہرت سن 1926ء میں لکھے گئے ارنسٹ ہیمنگوے کے مشہور ناول
سے ملی جس میں اس ریس کی بڑی تفصیل سے منظر کشی کی گئی ہے۔
ہیمنگوے نے اپنی آخری عمر کیوبا میں بسر کی۔

ارنسٹ ہیمنگوے نے اپنی عادات کے بارے میں بتایا تھا کہ ’’میں ہر صبح لکھتا ہوں۔‘‘
جارج پلمٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے اپنے روزمرہ معمولات یو ں بیان کیے۔’’جب مجھے کسی کتاب یا کہانی پر کام کرنا ہوتا ہے تو میں صبح پوپھوٹتے ہی کام شروع کر دیتا ہوں، یہ ایسا وقت ہے جس میں کوئی بھی آپ کے کام میں خلل انداز نہیں ہوتا اور اس طرح بہت سہولت سے آپ اپنا کام کر لیتے ہیں، اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے، یہ آپ کی تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔‘‘ ہیمنگوے کا کہنا تھا کہ”شراب انسان کی اچھی دوست ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم اور اُس کے بعد ایف بی آئی اُن کی نگرانی کرتی رہی کیوں کہ شبہ کیا جاتا تھا کہ ہسپانوی سول وار کے دنوں میں جن مارکسی سوچ کے حامل افراد کے ساتھ اُن کا تعلق استوار ہوا، وہ اُس زمانے میں کیوبا میں دوبارہ سرگرم تھے۔ 1960ء میں ہمینگوے بلڈپریشر اور جگر کی بیماری کا شکار ہوگئے اور قریباً ایک سال کسمپرسی کی زندگی گزاری۔
1952ء میں اپنے سمندری سفروں پر مبنی تجربات کو ”بوڑھا اور سمندر“ کی شکل دینے کے بعد جب وہ افریقہ گئے تو دو بار جہاز وں کی تباہی میں موت کو پھر سے چکمہ دیا، جدیدیت پسندی کے رجحانات، اسپین سول وار میں رپبلکنز کی حمایت،جنرل فرانکو کی مخالفت اور کیوبا سے اپنے تعلقات کی بنا پر وہ امریکی حکومت کی نظروں میں کھٹکتے رہے اور ایف بی آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے انہیں اپنی نظروں سے کبھی بھی اوجھل نہ ہونے دیا، یا یوں کہ وہ ” میکارتھی ازم” کا شکار ہوئے۔
2 جولائی 1961 میں امریکی ریاست ” ایوڈا” کے شہر ” کچھمم” میں ان کا انتقال ہوا ۔ ایک کیتھولک راہب کا کہنا تھا کی ان کی موت ” حادثادتی” تھی جبکہ ہیمنگوے کی بیوی نے اپنے ایک اخباری مصاحبے میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے آپ کو گولی مار کر خود کشی کی تھی اور اس کی وجہ اعصابی تناؤ اور کثرت شراب نوشی تھی۔
ہیمنگوے نے اپنی 62 ویں سال گرہ منانے سے چند روز پہلے ہی اپنی پسندیدہ شاٹ گن سے خود کو گولی مار کرموت سے کہا: ’’چلو اب چلتے ہیں”۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ امریکی اداکارہ سنڈی کرافورڈ ارنسٹ ہمنگ وے کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

وداع جنگ کی اشاعت کے بعد دس برس تک کوئی اہم تخلیقی کام نہیں آسکا۔ ایک عشرے پر محیط اس تخلیق بنجر پن کے دور کے بعد جب اس کا ناول

Across the river and into the trees

شائع ہوا تو نقادوں نے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا، اس کتاب میں ہیمنگوے نے دوسری جنگ عظیم میں اخباری نمائندہ کے طور پر حاصل ہونے والے تجربات کو ناول کی صورت میں کامیابی سے ڈھالا تھا لیکن ناکامی ہوئی۔

ارنسٹ ہیمنگوے مشہور مصنفین میں سے ایک ہیں جنہوں نے قلم کو کاغذ پر رکھا تو پھر قلم رک نہیں پایا اور انمول تحاریر قلمبند ہوتی چلی گئیں، لیکن ان کے بیشتر اقوال انٹرنیٹ پر بڑی غلطیوں کے ساتھ نقل کیئے جاتے ہیں، یہاں مطالعے کے لیئے ان کے 12 اقوال درج ذیل ہیں۔

  1. “The way to make people trust-worthy is to trust them.”
    Ernest Hemingway Selected Letters 1917-1961
  2. “When people talk listen completely. Don’t be thinking what you’re going to say. Most people never listen.”
    Across the River and into the Trees, 1967
  3. “But man is not made for defeat… A man can be destroyed but not defeated.”
    The Old Man and The Sea, 1952
  4. “Courage is grace under pressure.”
  5. “The world breaks everyone and afterward many are strong at the broken places.”
    A Farewell to Arms, 1929
  6. “Forget your personal tragedy. We are all bitched from the start and you especially have to hurt like hell before you can write seriously. But when you get the damned hurt use it—don’t cheat with it. Be as faithful to it as a scientist—but don’t think anything is of any importance because it happens to you or anyone belonging to you.”
    Letter to Scott Fitzgerald, dated 28 May 1934
  7. “Always do sober what you said you’d do drunk. That will teach you to keep your mouth shut.”
  8. “As a writer, you should not judge, you should understand.”
  9. “In order to write about life first you must live it.”
  10. “An intelligent man is sometimes forced to be drunk to spend time with his fools.”
  11. “All modern American literature comes from one book by Mark Twain called Huckleberry Finn. American writing comes from that. There was nothing before. There has been nothing as good since.”
  12. “There is no friend as loyal as a book.”

‘#earnesthemingway #quotes #famouswriter

The Old Man And The Sea
by Ernest Hemingway

Free download https://archive.org/details/TheOldManAndTheSea20141070/The%20Old%20Man%20and%20The%20Sea%2020141070-a5/

عورت کے رحم میں June 18, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

جب تم میں روح پھونکی جاتی ہے تو تم ایک عورت کے رحم میں ہوتے ہو اور جب روتے ہو تو ایک عورت کی بانہوں میں ہوتے ہو اور جب نکاح کرتے ہو تو عورت کے دل میں ہوتے ہو اس لئے عورتوں سے اچھے اخلاق سے پیش آیا کرو
ترکش رائٹر ظاہر گونش

دستکیں دیتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹہر جا June 10, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry, Urdu Poetry.
Tags: , , , , , , ,
add a comment

دستکیں دیتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹہر جا
میں جلا لوں پیار کی مشعل ہوا کچھ ٹہر جا

دستکوں کو ہاتھ تک آنے کا موقعہ دے ذرا
چلمنوں میں جھانکتی بے کل ہوا کچھ ٹھہر جا

آرزو کے کچھ ستارے اور ٹانکوں گی ابھی
میرا چھوٹا پڑگیا آنچل ہوا کچھ ٹہر جا

توڑ دیتی ہیں چٹانیں الفتو ں کی نرمیاں
تند خوئی چھوڑ بَن کومل ہوا کچھ ٹہر ج
ا

کچے خوابوں کے گھروندوں کو ذرا پکنے تو دے
ہو چکیں اٹھکیلیاں چنچل ہوا کچھ ٹہر جا

پیار کا ساون کبھی برسات سے پہلے بھی لا
دیکھ کتنے پیڑ ہیں گھائل ہوا کچھ ٹہر جا

روٹھے نیناں ؔ مان جائیں کچھ جتن اس کا بھی کر
ہلکے ہلکے آ کے پنکھا جھل ہوا کچھ ٹہر جا

Dastakein deti hui pagal hawa kuch theher ja

Mein jala lon pyar ki mash’al hawa kuch theher ja

Torr deti hain chatanein ulfaton ki narmiyaan

Tund’khoi chorr ban komal hawa kuch theher ja

Kachey khwabon ke gharondey kuch tau pukhta hone de

Ho chukein athkeeliyaan chanchal hawa kuch theher ja

Pyar ka sawan kabhi barsaat se pehle bhi la

Dekh kitne peirr hain ghayal hawa kuch theher ja

Roothey naina maan jayein kuch jatan uska bhi kar

Halke halke aa ke pankha jhal hawa kuch theher ja

Flying Bird

C:\Users\Farzana\AppData\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\05F5Q5ID\Books-aj.svg_aj_ashton_01.svg[1].png درد کی نیلی رگیں C:\Users\Farzana\AppData\Local\Microsoft\Windows\Temporary Internet Files\Content.IE5\05F5Q5ID\Books-aj.svg_aj_ashton_01.svg[1].png

Poetry Reels BE’DAKHL March 22, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry, Urdu Poetry.
Tags: , , ,
add a comment

Usne mmujhe zameen se be’dakhl kar diya #farzananaina #urdupoetry #urducouplets #shairy #kavita #famouspoetry #romanticpoetry #sadpoetry #poetryreels #shortvideo #trending #fyp

Global Village Dubai Reel 2 March 20, 2023

Posted by Farzana Naina in Dubai.
Tags: , ,
add a comment

آغوش January 5, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

’’ آغوش ‘‘


تم اک شفاف سا دریا
کہ جس کی لہروں میں اب بھی
مرے بچپن کے منظر بہتے رہتے ہیں
کہ جس کی سبز کائی پر
کنول کے پھول اک امید پر ایسے ہمکتے ہیں
کہ جیسے ماضی کے لمحے دوبارہ لوٹ آئیں گے
بہت سے خواب آنکھوں کے
اُسی موسم کی غمخواری کو آتے ہیں
جہاں ہم تم دوپہروں کی عجب انمول چھاؤں میں
اناروں کی نئی کلیوں سا چٹکے تھے
حسین و دلنشیں، شفقت بھرے پیکر
ہمیں اپنی نگاہوں کے تحفظ میں لیئے رہتے
وہ کیسے مرگئے جن کے ستارے منزلوں تک ہیں
کہاں وہ چل دیئے کہ جن کے دَم سے شمعیں جلتی ہیں
کسی بھی دستِ شفقت کا کوئی لمحہ نہیں بھولا
مرے دل میں اس آنگن کے پرندے
آنسوؤں کی ایک تسبیح روز پڑھتے ہیں
وہ پیاسے ہیں جبھی پنجوں کو اپنے گاڑے بیٹھے ہیں
مگر میں جانتی ہوں ایک دن ہم بھی وہاں ہوں گے
جہاں موجود بانہیں اکثر ہم کو ڈھانپ لیتی ہیں۔۔۔!

فرزانہ خان نیناؔں

ریت کے پیکر January 2, 2023

Posted by Farzana Naina in Poetry.
add a comment

ریت کے پیکر

سرخ پھولوں کی یہ بیلیں
جنگلوں میں اُگ رہی تھیں
دشت کی ہیبت سے خائف
مجھ سے رہتی تھیں گریزاں
چودھویں کی رات میں
خوشبو سے جلتے ہوئے
کتنے جسموں کے ستونوں سے
لپٹنا تھا انہیں
میں نے ان کے رنگ سے
ہر انگ اپنا بھر لیا
دور تک پھیلے ہوئے
ریت کے ذرے سنہرے تھے بہت
تیز ہوا کے جھکڑوں کا شور
اونچا تھا مگر
میں نے اُس منظر میں
تم کو بھی تو دیکھا تھا وہاں
بال ہوا میں اڑ رہے تھے
سرخ پھولوں کی یہ بیلیں
باندھ لیں چپکے سے میں نے
اپنے صحرائی سفر میں
ان کی سوندھی خوشبوؤں کے
…!… پَر لگائے چل پڑی

*** #urdupoetry #farzananaina