Allama Mohammad Iqbal – شاعر مشرق 1877 – 1938
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال

Parents of Allama Iqbal
خودی کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمیؑ ہے کار بے بنیاد
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
جنہیں میں ڈھونڈھتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
اسی خطا سے عتاب ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآل سکندری کیا ہے
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
ترا تن روح سے نا آشنا ہے
عجب کیا آہ تیری نارسا ہے
تن بے روح سے بے زار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے ۔
ایک روز (جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی ) انہیں اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی ۔ماسٹر صاحب نے پوچھا ’’اقبال تم دیر سے آئے ہو؟‘‘
اقبال نے بے ساختہ جواب دیا۔’’جی ہاں! اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے ۔‘‘۔
Advertisements
ASSALAAM O ALAIKUM
Bohat khoob aap ney hum students ke liye rastoon mey roshni daldi agr ilm ki rah par chalna jannat ke mutaraadif hai tou aap jaisey log behlool dana yani jannat keh ghar bechney waaley ke mutaraadif hain.
Syed Ahmar HUSSAIN